زندگی کی گاڑی چلانے کیلئے رکشہ چلانے والا سابق اولمپئن سائیکلسٹ چل بسا

اپنے جیتے گئے میڈلز اپنے رکشے میں لٹکائے لاہور کی سڑکوں پر مسافروں کو ان کی منزلوں پر پہنچاتا تھا، اب خود اپنوں کی جانب سے ناقدری کا شکوہ لیے حقیقی منزل پر پہنچ گیا

پیر 19 مارچ 2018 20:44

زندگی کی گاڑی چلانے کیلئے رکشہ چلانے والا سابق اولمپئن سائیکلسٹ چل ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 مارچ2018ء) سابق اولمپیئن محمد عاشق خالق حقیقی سے جاملی! وہ اولمپیئن سائیکلسٹ جو اپنے آخری دنوں میں زندگی کی گاڑی کا پہیہ چلانے کے لیے رکشہ چلانے پر مجبور تھا۔وہ جو اپنے جیتے گئے میڈلز اپنے رکشے میں لٹکائے لاہور کی سڑکوں پر مسافروں کو ان کی منزلوں پر پہنچاتا تھا، اب خود اپنوں کی جانب سے ناقدری کا شکوہ لیے حقیقی منزل پر پہنچ گیا۔

83 سالہ محمد عاشق اس ماہ کی 11 تاریخ کو لاہور کے ایک اسپتال میں اپنی سالگرہ سے محض 6 روز قبل نہایت خاموشی سے ابدی نیند سوگئے۔اپنے آخری وقت میں شاید محمد عاشق نے اپنے میڈلز کی جانب بھی دیکھا ہوگا، انہوں نے ان لمحات کو بھی یاد کیا ہوگا جب عالمی ایونٹس میں کوئی مقابلہ جیت کر انہوں نے وطن عزیز کا نام روشن کیا تھا۔

(جاری ہے)

انہیں وہ وقت بھی یاد آیا ہوگا جب اپنے عروج کے دور میں انہوں نے ملک کے سربراہان سے ہاتھ ملایا ہوگا اور ان سے داد وصول کی ہوگی۔

انتقال سے کوئی 2 سال قبل اگست 2016 میں ایک انٹرویو میں عاشق نے بتایا تھا کہ وہ کئی صدور اور وزرا سے ملاقاتیں کرچکے ہیں، بقول عاشق وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں مر چکا ہوں۔ لوگ مجھے کیسے بھلا سکتے ہیں، مجھے یقین نہیں آتا۔اپنے آخری وقت میں اس ضعیف شخص کو زندگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے جو مشقتیں اٹھانا پڑی ہوں گی، ان تمام مشقتوں کا باب بھی اب بند ہوگیا۔

محمد عاشق کو کھیلوں کا شوق تھا اور انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز باکسنگ سے کیا تھا، لیکن اس مار دھاڑ والے کھیل سے لگنے والی چوٹیں عاشق کی اہلیہ سے دیکھی نہیں جاتی تھیں، لہذا انہوں نے عاشق کو اس کھیل سے منع کردیا اور پھر انہوں نے باکسنگ ترک کرکے سائیکلنگ شروع کردی۔پاکستان ریلوے میں ملازمت کے دوران انہوں نے 1960 میں روم اور 1964 میں ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس کے سائیکلنگ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی، لیکن کوئی میڈل نہیں جیت پائے تھے، ہاں لیکن 1958 اور 1962 کے ایشین گیمز میں انہوں نے چاندی اور کانسی کا تمغہ ضرور جیتا تھا۔

اور پھر عاشق کی ریلوے کی ملازمت کے اختتام کے ساتھ ان کا سائیکلنگ کا کیریئر بھی ختم ہوگیا اور مستقل ملازم نہ ہونے کی بنا پر وہ پینشن کے حقدار بھی نہ ٹھہرے۔۔

متعلقہ عنوان :