فیض آباد دھر نا کیس ،ْسپریم کورٹ کا انٹر سروس انٹیلی جنس کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار ،ْ دو ہفتوں میں نئی رپورٹ پیش کرنے کا حکم

کیا آپ آئی آیس آئی کی رپورٹ سے مطمئن ہیں ،ْ جسٹس فائزعیسیٰ کا استفسار ……جی ہم مطمئن ہیں ،ْڈپٹی اٹارنی جنرل آئی ایس آئی کو معلوم نہیں کہ خادم حسین رضوی کا ذریعہ آمدن کیا ہی اتنا پیسا کہاں سے آرہا ہی آپ کہے رہے ہیں رپورٹ سے مطمئن ہیں جسٹس فائز عیسیٰ کا جواب اربوں کی املاک تباہ کردی گئی ،ْ آپ کو اس کے اکاؤنٹس تک کا نہیں پتہ، مجھے تو خوف آنے لگا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ایجنسی کا یہ حال ہے ،ْ ریمارکس

پیر 19 مارچ 2018 20:41

فیض آباد دھر نا کیس ،ْسپریم کورٹ کا انٹر سروس انٹیلی جنس کی رپورٹ پر ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مارچ2018ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنے سے متعلق ملک کی انٹر سروس انٹیلی جنس کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دو ہفتوں میں نئی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے ۔ پیر کو سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل بینچ نے فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی جس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل احمد، وزارت دفاع کے نمائندے کرنل (ر) فلک ناز اور جوائنٹ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو انور علی پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وہ ملک سے باہر ہیں جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ آپ نے رپورٹ جمع کراودی ہے، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم نے آئی ایس آئی کی رپورٹ عدالت میں جمع کراودی ہے۔

(جاری ہے)

ڈپٹی اٹارنی جنر ل کے جواب پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آپ آئی آیس آئی کی رپورٹ سے مطمئن ہیں جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جی ہم مطمئن ہیں۔

نجی ٹی وی کے مطابق دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ اس رپورٹ میں واضح نہیں کیا گیا کہ یہ آدمی کون ہے اور کرتا کیا ہے، آئی ایس آئی کو معلوم نہیں کہ خادم حسین رضوی کا ذریعہ آمدن کیا ہی اتنا پیسا کہاں سے آرہا ہی اور آپ کہے رہے ہیں کہ آپ رپورٹ سے مطمئن ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دے کہ اربوں کی املاک تباہ کردی گئی اور آپ کو اس کے اکاؤنٹس تک کا نہیں پتہ، مجھے تو خوف آنے لگا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی ایجنسی کا یہ حال ہے۔

اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی رپورٹ کے مطابق خادم حسین رضوی معاشی طور پر بدعنوان ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ خادم حسین رضوی مسجد کے چندے سے چل رہا ہے یا کوئی اور ذریعہ معاش ہی جس پر وزارت دفاع کے نمائندے نے بتایا کہ خادم حسین رضوی خطیب ہیں۔وزارت دفاع کے نمائندے کے جواب پر جسٹس مشیر عالم ریمارکس دئیے کہ کیا کہ خطیب کو پیسے ملتے ہیں ہم کسی صحافی سے پوچھ لیں تو اسے آپ سے زیادہ پتہ ہوگا۔

سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے پوچھا تھا کہ خادم حسین رضویٰ کا ذریعہ معاش بتایا جائے، ہم آپ کی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی نے وزارت دفاع کے نمائندہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی ہماری طرح ٹیکس دہندہ لوگوں کے سامنے جواب دہ ہیںجس پر وزارت دفاع کے نمائندہ نے بتایا کہ خادم حسین رضوی عطیات اکھٹے کرتے ہیں جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ پھر یہ لکھ کر دیں کہ وہ دوسروں کے پیسوں پر پل رہے ،ْ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ خفیہ بریفنگ دینی ہے تو بتادیں۔

دوران سماعت آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ میں عدالت میں کچھ دستاویزات جمع کرانا چاہتا ہوں جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دے کہ یہ دستاویزات کیا ہیں ،ْیہ تو پریس رپورٹ ہے اور آپ ایسے دکھارہے ہیں جیسے کوئی خفیہ دستاویزات ہوں۔بعد ازاں عدالت نے آئی ایس آئی کی پیش کردہ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دو ہفتوں میں نئی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :