دل کی بات زبان پر آگئی:صرف موت ہی سعودی تخت و تاج سے محروم کرسکتی ہے،محمد بن سلمان

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 19 مارچ 2018 12:11

دل کی بات زبان پر آگئی:صرف موت ہی سعودی تخت و تاج سے محروم کرسکتی ہے،محمد ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 19 مارچ۔2018ء) سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان دل کی بات زبان پر لے آئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ صرف موت ہی انہیں سعودی تخت و تاج سے محروم کرسکتی ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان امریکا کا دورہ کررہے ہیں اور وہ کل صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ اس موقع پر امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ یہ تو خدا کو ہی پتہ ہے کہ میں کتنا جیوں گا، لیکن اگر زندہ رہا اور حالات صحیح رہے تو پھر توقع یہی ہے کہ اگلے 50 سال تک سعودی عرب کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں ہی رہے گی، اور پھر صرف موت ہی مجھ سے تخت چھین سکتی ہے۔

(جاری ہے)

ایران کے حوالے سے شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ایران کا سعودی عرب کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں، ایران نہ تو دنیا کی بڑی فوجی قوتوں میں شامل ہے اور نہ ہی اقتصادی میدان میں سعودی عرب کا ہم پلہ ہے۔

اسامہ بن لادن سے متعلق سوال کے جواب میں سعودی شہزادے نے کہا کہ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن نے نائن الیون کے حملوں کے لیے 15 سعودی شہریوں کو اپنے ساتھ شامل کیا، اسامہ کا واضح مقصد تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ اور مغرب، امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات خراب کرنا چاہتے تھے جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوگئے، تاہم ہم سعودی عرب میں حالات و معاملات کو تبدیل کر رہے ہیں اور گزشتہ تین سال کے دوران ہمیں اس میں کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

سعودی عرب میں انتہا پسندی و عدم برداشت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا یہ سچ ہے کہ 1979 میں مسجد الحرام میں ہونے والی خونریزی اور انقلاب ایران کے بعد پیش آنے والے حالات سے میری نسل کے لوگ بہت متاثر ہوئے اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوا۔شہزادہ محمد سلمان نے کہا کہ سعودی عرب کی یہ حقیقی تصویر نہیں، پہلا ہمارا ملک ایسا نہیں تھا، آپ 1960 اور 1970 کے سعودیہ کی تصاویر دیکھ لیں جب ہم باقی دنیا کے ملکوں جیسی نارمل زندگی گزارتے تھے، عورتیں گاڑیاں چلاتی تھیں اور ملازمت کرتی تھیں، سینما گھر ہوتے تھے لیکن 1979 میں پیش آنے والے واقعات سے سب کچھ بدل گیا، لیکن اب ہم عورتوں کو حقوق دے رہے ہیں، ان کے لیے کاروبار کرنا، فوج میں شمولیت، کنسرٹ اور موسیقی و کھیلوں کے مقابلوں میں جانا آسان بنادیا ہے۔

ایک سوال کہ کیا عورت مرد کے برابر ہوتی ہے کہ جواب میں سعودی شہزادے نے کہا کہ بالکل عورت مرد برابر ہوتے ہیں، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا، ہمارے ہاں کچھ ایسے انتہا پسند ہیں جو عورتوں مردوں کے اختلاط سے منع کرتے ہیں، لیکن یہ لوگ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے واقف نہیں۔شہزادہ محمد نے سعودی مذہبی پولیس کے وسیع اختیارات بھی ختم کردیے ہیں جو پردہ نہ کرنے پر خواتین کو گرفتار کرنے کا اختیار رکھتی تھی۔

اس حوالے سے سعودی ولی عہد نے کہا کہ اسلام میں عورتوں کے شائستہ لباس پہننے کا ذکر ہے لیکن مخصوص سیاہ برقعہ یا حجاب پہننے پر زور نہیں، اس حوالے سے عورتوں کو پوری آزادی ہے کہ وہ کس طرح کا معزز اور شائستہ لباس پہننا پسند کرتی ہیں۔ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ولی عہد نے کہا کہ سعودی حکومت انسانی حقوق کے کئی اصولوں پر یقین رکھتی ہے، لیکن یقینا سعودی معیارات امریکی معیارات جیسے تو نہیں ہوسکتے، ہمارے اندر خامیاں ہیں جن پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں۔

گزشتہ سال کرپشن کے الزام میں درجنوں شہزادوں اور وزرا کی گرفتاری سے متعلق سوال کے جواب میں ولی عہد نے کہا کہ یہ کام بہت ضروری تھا جو سعودی قوانین کے مطابق کیا گیا، گرفتار شدگان سے متعلق معلومات جلد سامنے لائیں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ ہم انتہا پسندی سے لڑنے کے لیے کتنا کام کررہے ہیں۔سعودی ولی عہد نے اس حوالے سے اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کے خلاف کریک ڈاﺅن کے ذریعے ہم نے 100 ارب ڈالر کی رقم واپس وصول کی ہے تاہم ہمارا مقصد لوٹی گئی دولت کی وصولی نہیں بلکہ بدعنوان عناصر کو سزا دینا اور یہ پیغام دینا تھا کہ اب نئی حکومت آگئی ہے۔

امریکی اخبار نے سعودی ولی عہد کی جانب سے حال ہی میں 500 ملین ڈالر کی فرانسیسی کشتی خریدنے کی خبر دی ہے۔ اس بارے میں ولی عہد نے کہا کہ میں اپنی ذاتی زندگی کو اپنے تک محدود رکھتا ہوں اور ڈھنڈورا نہیں پیٹتا، اگر بعض اخبارات کو اس بارے میں خبر دینے کا شوق ہے تو ان کی مرضی۔ جہاں تک میرے اخراجات کی بات ہے تو میں کوئی غریب نہیں بلکہ امیر شخص ہوں، میں کوئی مہاتما گاندھی یا نیلسن منڈیلا نہیں۔

میرا شاہی خاندان سے تعلق ہے جو سعودی عرب کے قیام سے بھی پہلے سینکڑوں سال سے قائم دائم ہے، ہماری بڑی جاگیریں ہیں، میری ذاتی زندگی جیسی پہلے تھی، اب بھی ویسی ہی ہے، میں اپنی آمدنی کا 51 فیصد خیرات اور 49 فیصد اپنے اوپر خرچ کرتا ہوں۔ سعودی عرب میں اسکولوں اور نصاب تعلیم سے متعلق اقدامات کے بارے میں ولی عہد نے کہا کہ پہلے سعودی اسکولوں پر اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے عناصر کا بہت زیادہ غلبہ تھا لیکن اب کچھ عناصر تو خود ہی پیچھے ہٹ گئے ہیں جب کہ کچھ عرصے میں باقی رہ جانے والوں کا بھی مکمل صفایا کردیا جائے گا، سعودی نظام تعلیم سے انتہاپسندی کو مکمل طور پر ختم کیا جائے گا کیونکہ دنیا کا کوئی ملک اپنے نظام تعلیم پر انتہا پسند تنظیم کے غلبے کو برداشت نہیں کرے گا۔

سعودی ولی عہد کی جانب سے سعودی عرب میں قدامت پسندی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم سب انسان ہیں اور مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایسے انتہا پسند ہیں جو دو مختلف جنسوں کے ملنے سے منع کرتے ہیں اور ایک مرد اور عورت کے درمیان اکلیے اور ساتھ کام کرنے کے فرق سے قاصر ہیں اور ان کے بہت سے خیالات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی زندگی سے متصادم ہیں۔

محمد بن سلمان نے کہا کہ ہم سب انسان ہیں اورہمارے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ سعودی ولی عہد کی جانب سے اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ سعودی معاشرہ قدامت پسند اسلام کے سخت غلبے کا شکار تھا، جو انہیں 1979 میں ایران میں انقلاب اور مکہ میں جامع مسجد پر قبضہ کرنے والے انتہا پسندوں سے ملا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم اس سے متاثر ہوئے تھے خاص طور پر میری نسل کو اس بڑے سودے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

محمد بن سلمان نے کہا کہ یہ اصل سعودی عرب نہیں اور اصل سعودی عرب 60 اور 70 کی دہائی میں تھا جہاں ہم دیگر خلیجی ریاستوں کی طرح عام زندگی گزارتے تھے۔انہوں نے کہا کہ1979 کے واقعات سے قبل دنیا کے دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی خواتین کار کی ڈرائیونگ کرتی تھی، سعودی عرب میں فلمی تھیٹر تھے اور خواتین ہر جگہ کام کرسکتی تھیں۔سعودی ولی عہد کی جانب سے انسداد کرپشن مہم کے دوران ریاست کے بڑے بڑے شہزادوں اور تجارتی شخصیات کے خلاف کارروائی کرنے کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا گیا کہ سعودی عرب میں ہم نے جو کیا وہ بالکل ضروری اور قانونی اقدام تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس دوران قیدیوں سے 100 ارب ڈالر غیر قانونی دولت کے وصول کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن اس کا مقصد پیسہ حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ بدعنوانوں کو سزا دینا تھا تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ جو کوئی بھی بدعنوانی کرے گا اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔سعودی ولی عہد کے رہن سہن سے متعلق اٹھنے والے سوالات اور سعودی حکومت کی جانب سے نئے ٹیکسز کے نفاذ پر محمد بن سلمان نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی دولت ان کا نجی معاملہ ہے اور جہاں تک میرے نجی اخراجات کی بات ہے تو میں کوئی غریب نہیں بلکہ امیر شخص ہوں اور نہ ہی میں گاندھی یا منڈیلا ہوں۔

خیال رہے کہ کچھ روز قبل ایک رپورٹ میں پتہ چلا تھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دنیا کا سب سے مہنگا ترین گھر خریدا تھا اور وہ اس کے مالک بن گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ بحیثیت ایک شخص میں اپنی ذاتی آمدنی امداد پر خرچ کرتا ہوں اور میں کم از کم 51 فیصد آمدن لوگوں پر اور 49 فیصد خود پر خرچ کرتا ہوں۔

متعلقہ عنوان :