واٹر ڈویژن نے پبلک سیکٹر ڈویلمپنٹ پروگرام ترقیاتی منصوبوں کے لیے 204 ارب روپے طلب کرلیے

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 19 مارچ 2018 11:44

واٹر ڈویژن نے پبلک سیکٹر ڈویلمپنٹ پروگرام ترقیاتی منصوبوں کے لیے 204 ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 19 مارچ۔2018ء) واٹر ڈویژن نے پبلک سیکٹر ڈویلمپنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی ) کے تحت مالی سال 19-2018 میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 204 ارب روپے طلب کیے ہیں۔ تخمینے کی لاگت رواں مالی سال کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے۔ واٹر ڈویژن نے پلاننگ کمیشن کو 116 منصوبوں پر مشتمل ایک فہرست ارسال کی جس پر مجموعی طور پر 22 کھرب 90 ارب روپے کی لاگت آئے گی، مذکورہ منصوبوں میں 16 کھرب 50 ارب روپے غیر منصور شدہ منصوبوں کے لیے تجویز کردہ ہیں۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ 465 ارب روپے مختلف منصوبوں پر خرچ کیے جا چکے ہیں جبکہ 18 کھرب روپے منصوبوں کی تکمیل کے لیے مختص کیے گئے۔سمری میں کہا گیا کہ حکومت کو مالی سال 19-2018 میں منصوبوں کو جاری رکھنے کے لیے 203 ارب روپے جبکہ مالی سال 20-2019 کے لیے 201 ارب روپے درکار ہوں گے۔

(جاری ہے)

واٹر ڈویژن نے 204 ارب روپے (19-2018) میں 201 ارب روپے 20-2019 کے دوران بچنے والی رقم کی بنیاد پر مالی سال 21-2020 میں 2 کھرب 39 ارب 50 کروڑ روپے کا تخمیہ پیش کیا ہے۔

پلاننگ کمیشن کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وزارتوں اور ڈویڑن روایتی طور پر فنڈز کے لیے بڑی رقم درج کرتے ہیں جسے بعدازاں وزارت فنانس اینڈ پلاننگ اور متعلقہ وزارتیں اپنے اجلاس میں تفصیل سے منصوبوں سے بحث کرتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں میں توانائی اور مواصلات کے شعبوں میں خطیر رقم خرچ کی گئی تاہم اب متعلقہ وزارتوں کی توجہ پانی کے شعبے پر مرکوز ہو گی لیکن حکومت کو پی ایس ڈی پی کے تحت جاری منصوبوں کے لیے درکار فنڈز زائد ہونے چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت مالی سال 18-2017 میں ڈویژن اور وزارتوں کی جانب سے 28 کھرب روپے کا تقاضہ کیا گیا جبکہ وفاقی حکومت نے صرف 10 کھرب روپے تفویض کیے۔ پلاننگ کمیشن کے عہدیدار نے بتایا کہ وزیراعظم اور ان کے مشیر برائے اقتصادی امور نے مشترکہ فیصلہ کیا ہے کہ اگلے مالی سال میں پی ایس ڈی پی کے تحت کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کیا جائے گا۔ذرائع نے مزید بتایا کہ قومی مفادعامہ پر مشتمل منصوبے کو صوبے اور وفاق کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے میرٹ کی بنیاد پر پاس کیا جائے گا، جس میں قومی اقتصادی کونسل سمیت وزیراعظم، گلگت بلتستان کے چیف ایگزیکٹو، آزاد کشمیر کے وزیراعظم، صوبائی وزیراعلیٰ شامل ہوں گے۔