(تصحیح شدہ )

امریکہ میں پاکستان کے کمیونٹی ویلفیئر اتاشی مرید رحمون بیک وقت دو سرکاری رہائش گاہوں کے مزے لوٹتے رہے ایک مکان پاکستان میں استعمال کرتے رہے، دوسرا مکان واشنگٹن میں سرکاری رہائش کی مدمیں 5300 ڈالر ماہانہ کرائے کی مدمیں وصول کرتے رہے پاکستان میں سرکاری رہائش کو بھی کرائے پر دے کر قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا دیں

اتوار 18 مارچ 2018 21:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 مارچ2018ء) امریکہ میں پاکستان کے کمیونٹی ویلفیئر اتاشی مرید رحمون بیک وقت دو سرکاری رہائش گاہوں کے مزے لوٹتے رہے۔ ایک مکان پاکستان میں استعمال کرتے رہے اور دوسرا مکان واشنگٹن امریکہ میں سرکاری رہائش کی مدمیں 5300 ڈالر ماہانہ کرائے کی مدمیں وصول کرتے رہے۔ موصوف نے پاکستان میں سرکاری رہائش کو بھی کرائے پر دے کر قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا دیں۔

معلومات ملنے کے بعد ایف آئی اے نے تمام ضروری دستاویزات حاصل کرکے مقدمہ درج کیا اور معاملہ عدالت میں چلا گیا۔ ماتحت عدالتوں نے سرکار کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے شخص کو قصور وار ٹھہرایا لیکن ڈی جی ایف ائی اے بشیر میمن نے مرید رحمون کو معصوم ثابت کرنے کیلئے صرف ایک رات میں انکوائری کروا کر بے گناہی کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔

(جاری ہے)

مرید رحمون کے خلاف تحقیقات کرنے والے ڈائریکٹر ایف آئی اے انعام غنی اور ان کی ٹیم کے خلاف محکمانہ کارروائی کا حکم دے دیا۔

معاملہ 2014 کے آخری مراحل سے شروع ہوتا ہے جب ایف آئی اے اسلام آباد زون کے ڈائریکٹر انعام غنی تھے۔ایف آئی اے نے انکوائری شروع کی مرید رحمون جو کہ امریکہ میں کیمونٹی ویلفیئر اتاشی تھے۔ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسٹیٹ آفس سے ایک گھر ایف سیون میں الاٹ کرایا ہوا ہے جبکہ دوسرا گھر امریکہ میں 5300 ڈالر ماہانہ کرائے پر بھی حاصل کیا ہوا ہے جو کہ حکومت پاکستان ادا کر رہی ہے ۔

واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے تین سال تک مرید رحمون کی رہائش کے لئے 5300 ڈالر ماہانہ کرایہ ادا کیا جبکہ رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور جھوٹ اور مکرو فریب سے امریکہ میں ایک گھر کے ساتھ ساتھ ایف سیون میں بھی الاٹ کرایا ہوا ہے جو کہ ایکومنڈیشن ایلوکیشن رولز 2002 کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے جب مرید رحمون کے دو گھروں کی انکوائری شروع کی تو پتہ چلا کہ مرید رحمون نے اسٹیٹ آفس سے ایف سیون سے گھر الاٹ کرایا پھر جب ان کی تعیناتی کمیونٹی ویلفیئر اتاشی کے طور پر امریکہ میں ہوئی تو اپنی فیملی کو امریکہ میں شفٹ کیا جبکہ ایف سیون والا گھر غیر قانونی طور پر پرائیویٹ پارٹی کو رینٹ پر دے دیا جبکہ خود امریکہ میں 5300 ڈالر ماہانہ کرائے پر گھر حاصل کر کے لطف اندوز ہوتے رہے جبکہ ایف سیون والے گھر کا کرایہ بھی ہڑپ کرتے رہے ۔

تفتیش میں مزید انکشاف ہوا کہ جب اسٹیٹ آفس کو مرید رحمون کے فراڈ کا پتہ چلا تو انہوں نے مرید رحمون کی الاٹمنٹ کو کینسل کیا اور سینئر جوائنٹ سیکرٹری بی پی ایس 21 عبدالمالک غوری کو وہ گھر الاٹ کیا اور جب عبدالمالک غوری اس گھر کا قبضہ لینے گئے تو گھر یک اندر موجود لوگوں نے انہیں گھر میں داخل ہونے سے روک دیا ۔ عبدالمالک غوری نے اسٹیٹ آفس میں بتایا کہ مجھے گھر میں داخل نہیں ہونے دیا گیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اسٹیٹ آفس نے گھر کا قبضہ دلوانے کے بجائے انہیں دوسرا گھر الاٹ کر دیا ۔

ایف آئی اے کی تفتیش م%ن جب یہ ثابت ہو گیا تو مرید رحمون نے نہ صرف 5300 ڈالر ماہانہ تین سال تک نہ صرف گورنمنٹ آف پاکستان کو مالی طور پر نقصان پہنچایا بلکہ ایکومنڈیشن ایلوکیشن رولز 2002 کی بھی دھجیاں اڑا دی ہیں اور انکوائری اس اسٹیج پر پہنچ گئی کہ مرید رحمون کے خلاف گورنمنٹ آف پاکستان کو نقصان پہنچانے اور 2002 کی خلاف ورزی کرنے پر ایف آئی آر کاٹی جائے جبکہ ایف آئی اے نے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر لیگل کی ہدیات پر مرید رحمون کے خلاف ایف آئی آر دے دی ۔

ایف آئی آر کے بعد مرید رحمون سیشن کورٹ سے ہوتے ہوئے سینئر سول جج کی عدالت میں گئے لیکن سب نے ایف آئی اے کی تحقیقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مرید رحمون کی رٹ خارج کر دی جبکہ عدالت نے واضح حکم دیا کہ مرید رحمون کی وجہ سے جو قومی خزانے کو نقصان ہوا ہے وہ مرید رحمون سے واپس لیا جائے لیکن مرید رحمون کی تمام کیس ہارنے کے بعد قسمت اس وقت کھلی جب بشیر میمن ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے لگا دیئے گئے ۔

واضح رہے کہ بشیر میمن کی تعیناتی کے ساتھ ہی کہانی دوسرا رخ اختیار کر گئی۔ بشیر میمن کی تعیناتی کے ساتھ ہی مرید رحمون نے ڈی جی ایف آئی کو درخواست دی کہ اس کیس میں میرے ساتھ زیادتی ہوئی جبکہ ڈی جی نے انکوائری دوبارہ کھولتے ہوئے ایک مرتبہ پھر انکوائری ایڈیشنل ڈائریکٹر کیپٹن ریٹائرڈ شعیب کے حوالے کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر انکوائری کا حکم دے دیا ۔

قارئین کے لئے یہ بات حیرت انگیز ہو گی کہ کیپٹن (ر) شعیب نے صرف ایک رات میں انکوائری ختم کر کے مرید رحمون کو کلین چٹ تھما دی جبکہ اس وقت کے ڈائریکٹر ایف آئی اے انعام غنی اور انکے جونئیر آفیسرز کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا جبکہ مرید رحمون کو بالکل دودھ کا دھلا ہوا قرار دے دیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کیپٹن(ر) شعیب نے انعام غنی اور انکے جونئیر آفیسرز کو کو ایک مرتبہ بھی نہیں بلایا اور پوچھنے کی زحمت تک ہی نہیں کی کن وجوہات اور تحقیقات کی بنیاد پر آپ نے مرید رحمون کے خلاف ایف آئی آر دی تاہم انکوائری بند ہونے کے بعد ڈی جی ایف آئی اے نے وزارت داخلہ کو انعام غنی اور انکے جونئیر افسران کو معطل کرنے کی سفارش ضرور کر دی جس کے بعد انعام غنی عدالت میں چلے گئے ۔

کل اطہر من اللہ کی عدالت نے ایف آئی اے کی طرف سے بند کی جانے والی انکوائری کے خلاف آرڈر دیتے ہوئے کہا کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کیپٹن(ر) شعیب اور عبدالرؤف مرید رحمون کے خلاف انکوائری کرتے انہوں نے بغیر تحقیقات کے ایک ہی رات میں انکوائری کر کے ثابت کر دیا کہ ان کے عزائم مرید رحموں کو کلین چٹ دینا تھی حالانکہ 2014 اور 2015 میں کی جانے والی ایف آئی اے کی انکوائری یہ ثابت کرتی ہے کہ مرید رحمون نے نہ صرف حکومت پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ایکومنڈیشن ایلوکیشن رولز کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے دھوکہ دہی اور فراڈ کے مرتکب ہوئے ہیں لیک کیپٹن(ر)شعیب اور عبدالرؤف نے الٹا انعام غنی اور انکے جونئیر افسران کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے محکمانہ کارروائی کا حکم دے دیا جبکہ مرید رحمون کو سراسر بے گناہ قرار دیتے ہوئے کلین چٹ دے دی۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالرؤف سے جب پوچھا کہ انہوں نے دو رہائشیں لینے کے حوالے سے مرید رحمون کے خلاف انکوائری کی تو انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ عدالت نے فیصلے میں مزید لکھا کہ عدالت نے ڈی ڈی ایف آئی اے عبدالرؤف سے پوچھا کہ فنانس ڈویژن اور دوسرے متعلقہ اداروں سے پوچھا تو انہوں نے دوبارہ نفی میں سر ہلایا۔عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ دونوں فریقین کو سننے اور دلائل اور ثبوتوں کو سامنے رکھتے ہوئے عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس انکوائری میں شفافیت نظر نہیں آئی جبکہ پیشہ وارانہ امور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انکوائری کی گئی ۔

عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو پابند کیا کہ 16 مارچ کو سینئر آفیسرز آ کر عدالت کو بتائیں کہ کن وجوہات کی بنیاد پر انکوائری کو دوبارہ کھولا گیا اور عدالت کو بتایا جائے کہ سول سرونٹس کے لئے دو گھر رکھنے کے حوالے سے پالیسی کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے کے تعینات کردہ آفیسرز ایکومنڈیشن ایلوکیشن کے حوالے سے عدالت کو کیا بتاتے ہیں ۔ واضح رہے کہ دوہری رہائش رکھنے کے حوالے سے اس وقت لگ بھگ پچاس سے زائد آفیسرز ہیں جن کے پاس دوہری رہائشیں ہیں اور ذرائع ایف آئی اے یہ بتاتے ہیں کہ ایف آئی اے کاریہ کارٹیل ان تمام آفیسرز کو بچانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس حوالے سے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے موبائل پر بارہا رابطہ کیا گیا انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا ۔۔

متعلقہ عنوان :