Live Updates

کراچی میں مقامی حکومت کے پاس اختیارات نہیں، لوگوں پر خرچ ہونے والا پیسہ زیادہ تر دبئی جارہا ہے، عمران خان

براہ راست منتخب کیا گیا میئر چاہتے ہیں، کراچی کو پیسہ بنانے کیلئے استعمال کیا جاتا ، پولیس کام نہیں کرتی جس کی وجہ سے کراچی میں رینجرز ہیں حکمران پولیس کو ٹھیک نہیں ہونے دیتے، کراچی کے لوگوں کو پی ٹی آئی کو موقع دینا چاہئے، کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے خطاب

اتوار 18 مارچ 2018 17:30

�راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 مارچ2018ء) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ کراچی میں مقامی حکومت کے پاس اختیارات نہیں، لوگوں پر خرچ ہونے والا پیسہ زیادہ تر دبئی جارہا ہے، ہم براہ راست منتخب کیا گیا میئر چاہتے ہیں، کراچی کو پیسہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ، پولیس کام نہیں کرتی جس کی وجہ سے کراچی میں رینجرز ہیں، حکمران پولیس کو ٹھیک نہیں ہونے دیتے، کراچی کے لوگوں کو پی ٹی آئی کو موقع دینا چاہئے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو کراچی پریس کلب کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ قبل ازیں عمران خان میڈیا سے بات چیت کے لیے کراچی پریس کلب پہنچے ۔اس موقع پر انہوں نے پریس کلب کے عہدیداران سے ملاقات کی۔

(جاری ہے)

کراچی پریس کلب کے صدر احمد ملک، جنرل سیکریٹری مقصود یوسفی سمیت دیگر عہدیداران ملاقات میں موجود تھے۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی میں مقامی حکومت ہے جس کے پاس اختیارات نہیں ۔

جو پیسہ لوگوں پر خرچ ہونا چاہئے وہ زیادہ تر دبئی جا رہا ہے۔ ہم براہ راست منتخب کیا گیا میئر چاہتے ہیں جو میٹروپولیٹن سسٹم چلائے جو پوری دنیا میں چل رہا ہے۔ کراچی کے لوگوں کو پی ٹی آئی کو موقع دینا چاہئے۔ اس سے پہلے جسے موقع ملا اس نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بانی متحدہ لندن میں بیٹھ کر کراچی پر حکومت کر رہا تھا ۔ ہم لوکل حکومت اور پولیس کو ٹھیک کریں گے۔

پولیس کام نہیں کرتی جس کی وجہ سے کراچی میں رینجرز ہیں۔ کراچی کو پیسہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پختونخواہ میں جرائم اور دہشت گردی کم ہو گئی ہے۔ وہاں سب سے زیادہ دہشت گردی تھی۔ آج وہاں سب سے زیادہ امن ہے۔ وہاں نواز شریف اور دوسرے رہنما تقریر کرسکتے ہیں جو پہلے نہیں کرسکتے تھے۔ پختونخواہ میں یہ لوگ جانتے ہیں کہ پولیس تبدیل ہوچکی ہے پھر بھی یہ پولیس کو تبدیل نہیں ہونے دے رہے کیونکہ اس سے یہ سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں اور پولیس کو اپنے غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

حکمران پولیس کو ٹھیک نہیں ہونے دیتے۔ انیس سو اٹھانوے سے ن لیگ اور پی پی پی کو اقتدار میں آئے ہوئے بیس سال ہوچکے لیکن انہوں نے پولیس، ہسپتال اور صفائی کا نظام ٹھیک نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں سندھ اور کراچی کے مسلسل دورے کروں گا ۔ میں یہاں تبدیلی لانا چاہتا ہوں۔ سندھ کا مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کے جو حکمران سندھ سے جیت کر آتے ہیں ان کی کراچی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

تحریک انصاف قومی پارٹی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آصف زرداری اور نواز شریف بدعنوانی کے ذمہ دار ہیں۔پہلے پاکستانیوں پر پینتیس ہزار فی کس قرضہ تھا جو اب بڑھ کر ایک لاکھ تیس ہزار ہوچکا ہے۔ قوم غریب ہوتی گئی، یہ دونوں گھرانے امیر تر ہوتے گئے۔ ایک اور سوال کے جوا ب میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور زرداری کی وکٹیں اکٹھی گریں گی۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں بلاول جیسے بچوں کا جواب نہیں دینا چاہتاجنہیں پاکستان کا پتہ ہی نہیں کہ یہاںکیا ہورہا ہے۔ جنہوں نے پیدل چل کر بھی نہیں دیکھا۔ بلوچستان سے سینیٹر لانا ہماری جیت ہے۔ اس سے بلوچستان کے لوگوں کو کم از کم ایک پیغام تو جائے گا کہ بلوچستان کے لوگ بھی مرکز میں آئیں گے اور حکومت کا حصہ بنیں گے۔

مجھے بڑی دیر کے بعد پاکستانی سیاست سے خوشی ہوئی۔ دوسری چیز نواز شریف کا سینیٹ کا چیئرمین نہیں بن سکا۔ یہ پاکستان تحریک انصاف کی جیت تھی۔ نواز شریف کا بڑا ایجنڈہ یہ ہے کہ عدلیہ ، پاکستان اور ادارے تباہ ہوجائیں۔ کسی طرح ان کے اربوں روپے کی کرپشن بچ جائے۔ ہمیں خطرہ تھا کہ یہ اپنے مفاد میں کوئی قانون پاس نہ کروالیں۔ ہمیں اس لیے خوشی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئے گی تو ہم اسمبلی کو طاقت دیں گے۔ وزیر اعظم ہر ہفتے اسمبلی میں کھڑے ہو کر سوالوں کا جواب دے گا۔ میں جو کہتا تھا کہ ہماری سیاسی لیڈر شپ نے ہماری پارلیمنٹ کو کمتر کیا ہوا ہے۔ میں کہتا تھا کہ پیسے سے سینیٹر بنتے ہیں۔ سینیٹ نے اس کا نوٹس لیا اور مجھے سینیٹ میں برا بھلا کہا گیا۔

اب خدا کا کرم ہے کہ حاصل بزنجو سینیٹ میں کھڑے ہو کہتے ہیں کہ منڈی لگی ہوئی ہے۔ نواز شریف اور فضل الرحمن نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے۔ نواز شریف اس کا موجد ہے۔ فضل الرحمن ہارس ٹریڈنگ کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ اب ان کے منہ سے باتیں نکل رہی ہیں۔ جب ہم نے سسٹم تبدیل کرنے کا کہا تو حکمراں سیاستدان نہیں مانے۔ اب سب لوگ جو تبدیلی نہیں آنے دے رہے تھے، سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر مجھے زرداری کو صدر بنانا پڑا ، میں اپنی شکل شیشے میں کیسے دیکھوں گا۔ تحریک انصاف کے خیبر پختونخواہ کے تجربے سے ہم نے یہ سیکھا ہے کہ ہماری پارٹی میں کوئی بھی لوگ آکر شامل ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ پارٹی میں آتے ہیں، انہیں پارٹی کا منشور ماننا پڑتا ہے۔ سیاسی اتحاد میں یہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ پارٹی کے ماتحت نہیں ہوتے۔

جو بھی پارٹی کا منشور مانتا ہے وہ پارٹی میں آئے گا۔ جب آپ اتحاد کریں گے تو کرپٹ لیڈر کی پارٹی سے اتحاد نہیں کرناچاہئے۔ اس سے آپ کا منشور خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل سیکریٹری مقصود یوسفی نے کہا کہ کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کراچی پریس کلب کے تاحیات اعزازی رکن ہیں۔ عمران خان نے ملک کو ورلڈ کپ اور شوکت خانم اسپتال کا تحفہ دیا۔ تقریب سے کراچی پریس کلب کے صدر احمد ملک نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ عمران خان کی حیثیت پاکستان میں ہمیشہ سے ہیرو کی رہی ہے۔ انہوں نے ورلڈ کپ کے بعد شوکت خانم جیسا بہترین اسپتال قائم کیا۔ شعبہ تعلیم میں بھی نمل کے قیام سے ملک کو ایک اور تحفہ دیا۔ کپتان نے سیاست میں بھی قدم رکھا اور انتہائی مشکلات اٹھائیں۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات