صوبہ بلوچستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسیع رقبے کو مد نظر رکھ کر نئی حلقہ بندیوں پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے‘

قومی اسمبلی کے لئے ضلع وار اور صوبائی اسمبلی کے لئے مزید بیس نشستوں کا اضافہ کیا جائے، بلوچستان اسمبلی کا مطالبہ

ہفتہ 17 مارچ 2018 23:14

کوئٹہ ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 مارچ2018ء) بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہفتے کو سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی کی زیر صدارت منعقد ہوا ۔ میر عاصم کرد گیلو ، شیخ جعفرخان مندوخیل ، میر عامر رند ، سید محمد رضا ، عبدالرحیم زیارتوال ، ڈاکٹر حامدخان اچکزئی ، آغا سید لیاقت ، عبیداللہ جان بابت، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، میر خالد خان لانگو ، رحمت صالح بلوچ، انجینئر زمرک خان اچکزئی ، میر اظہار حسین خان کھوسہ ، میر محمدخان لہڑی ، سردار عبدالرحمان کھیتران ، نصراللہ زیرئے ، حسن بانو رخشانی اور ڈاکٹر شمع اسحاق کی مشترکہ قرار اد اد میر عاصم کرد گیلو نے ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں حالیہ مردم شماری کے نتیجے میں صوبہ بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مرتب کردہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق بلوچستان کے لئے قومی اسمبلی میں تین جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے عوام کے مسائل ان کے دہلیز پر حل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اور مختلف اقوام کا دست و گریبان ہونے کا بھی خدشہ ہے ۔

(جاری ہے)

قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ صوبہ بلوچستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسیع رقبے کو مد نظر رکھ کر نئی حلقہ بندیوں پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے جس کے تحت قومی اسمبلی کے لئے ضلع وار اور صوبائی اسمبلی کے لئے مزید بیس نشستوں کا اضافہ کیا جائے تاکہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی کا ازالہ ممکن ہوسکے ۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے محرک میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ جب بلوچستان اسمبلی وجود میں آئی تو حلقوںکی تعداد23تھی مختلف ادوار میںمردم شماری کے بعد صوبائی اسمبلی کے ایوان کی نشستیں بڑھ کر 65ہوگئیں ۔ بلوچستان میں اس وقت قومی اسمبلی کی نشستیں ناکافی ہیں صوبے کے 32اضلاع کو قومی اسمبلی کے الگ الگ حلقے بنائے جائیں جبکہ کوئٹہ کی آبادی زیادہ ہے اس لئے کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی پانچ حلقے بنائے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے وزیراعظم کا امیدوار آہی نہیں سکتا نئے حلقہ بندیوں میں پانچ پانچ اضلاع کو ایک حلقے میں شامل کیا گیا ہے جو کہ خیبرپختونخوا کے رقبے کے برابر بنتا ہے 70سال گزرنے کے باوجود بھی صوبے میں پینے کے پانی ، بجلی ، سڑکوں ، ہسپتال جیسی سہولیات ناپید ہیں کیونکہ یہاں اتنے بڑے حلقے ہیں کہ اگر آپ حلقے میں ایک سکیم شروع کریں تو چھ سال تک وہ سکیم مکمل نہیں ہوتی ۔

بلوچستان میں ہر تیسرا شخص ہیپا ٹائٹس کا شکار ہورہا ہے انسان اور جانور ایک ہی تالاب سے پانی پی رہے ہوتے ہیں‘ گزشتہ این ایف سی ایوارڈ کے طرز پر حلقہ بندیاں بھی غربت ، پسماندگی ، آمدن اور رقبے کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جائیں ۔صوبائی وزیر قانون وپارلیمانی امور آغامحمد رضا نے کہا کہ حالیہ مردم شماری کے بعد بنائی جانے والی حلقہ بندیوں سے صوبے میں برادر اقوام کے دست و گریبان ہونے کے خدشات لاحق ہیں۔

اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں ، عوامی نمائندوں سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی ‘حلقہ بندیوں میں ایسی اصطلاحات شامل کی گئی ہیں جن کا مطلب کسی کو نہیں معلوم ، اگر حلقہ بندیاں درست نہ کی گئیں تو خانہ جنگی کے خدشات لاحق ہوں گے ۔نیشنل پارٹی کے رکن میرخالد لانگو نے کہا کہ بلوچستان پسماندہ صوبہ ہے یہاں نئی حلقہ بندیوں میں بنائے جانے والا ایک حلقہ70ہزار سکوائر کلو میٹر پر محیط ہے جو کہ خیبرپختونخوا کے رقبے سے صرف تھوڑا سا چھوٹا ہے‘ قومی اسمبلی کا ایک حلقہ 11سو کلو میٹر بن رہا ہے اگر ایک رکن قومی اسمبلی پانچ سال کے لئے منتخب ہوگا تو وہ اپنے حلقے کا مکمل دورہ بھی نہیں کرپائے گا۔

واشک ، خاران کو ایک حلقہ بنادیا گیا جس سے دو مختلف قبائل میں تصادم کا خطرہ ہوسکتا ہے بلوچستان ایک حساس صوبہ ہے یہاں پہلے بھی قبائل الیکشن کے معاملے پردست و گریباں ہوچکے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ ایک بارپھر ایسی صورتحال پیدا ہو لہٰذا صوبائی اسمبلی کے حلقوں کو پہلے کی طرح رہنے دیا جائے جبکہ جہاں آبادی بڑھی ہے ان علاقوں میں قومی اسمبلی کے حلقوں کو بڑھایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان وسیع و عریض اور وسائل سے مالا مال صوبہ ہے لیکن انتہائی پسماندگی کا شکار ہے‘ قومی سیاسی جماعتوں کی قیادت کئی کئی سال صوبے کا دورہ نہیں کرتی انہیں یہاں کی پیچیدگیاں معلوم نہیں‘ میری رائے ہے کہ جہاں آبادی بڑھی ہے ان علاقوں میں حلقوں میں اضافہ کردیا جائے اور پرانی حلقہ بندیوں کو نہ چھیڑا جائے اگر بلوچستان میں کسی بھی قسم کے ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوئی تو اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوگی ۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کی جانے والی نئی حلقہ بندیوں میں انصاف کے تقاضوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا ایک طرف ایک حلقہ دس لاکھ آبادی پر مشتمل ہے تو دوسری جانب قومی اسمبلی کا وہی حلقہ چار لاکھ 35ہزار کی آبادی پر بنادیا گیا ہے‘ بلوچستان کی تاریخی حیثیت کو نئی حلقہ بندیوں سے خطرہ ہے‘ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے قوانین کو مد نظر نہیں رکھا جس کی وجہ سے معاملات خراب ہونے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے تمام بڑی سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس حوالے سے قانون سازی کریں ۔جمعیت علماء اسلام کے مفتی معاذ اللہ نے کہا کہ ہمیں وفاق سے ہمارے حقوق ملنے چاہئیں اب جبکہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے قریب ہے ایسے میں بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے ملک کے نصف کے برابر ہے کو قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں رکھی گئی ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست نہیں دی گئی یہ عمل ہمیں پسماندہ رکھنے کے مترادف ہے ‘ قرار داد منظور کرکے وفاق میں سینٹ اور قومی اسمبلی میں مسئلے پر بات کی جائے ۔

جے یوآئی کی حسن بانو رخشانی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندوں سے مشاورت کئے بغیر نئی حلقہ بندی سازش کے مترادف ہے جس کا مقصد انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کرنا ہے‘ نئی حلقہ بندی سے تنازعات کا بھی خدشہ ہے انہوں نے کہا کہ جب حلقہ بندیاں ہورہی تھیں اس وقت ہمارے سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی کو اس پر آواز بلند کرنی چاہئے تھی اس پر فوری طور پر کمیٹی بنا کر وفاق میں بات کی جائے ۔

صوبائی مشیرخزانہ ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے کہا کہ حالیہ مردم شماری میں پی بی ٹو کی آبادی 56ہزار ظاہر کرنا ظلم کی انتہاء ہے‘ ہزارہ برادری اور سیٹلرز جن کی پہلے ٹارگٹ کلنگ ہوئی اب ان کی آبادی بھی کم ظاہر کی گئی ہے جس کا مقصد انہیں نمائندگی سے محروم کرنا ہے۔ نیشنل پارٹی کے میر مجیب الرحمان محمد حسنی نے کہا کہ صوبے میں بعض حلقے ایسے بنائے گئے ہیں جن سے خون خرابے کا خدشہ ہے‘ قومی اسمبلی کے ایسے حلقے بنائے گئے ہیں کہ جہاں صرف انتخابی مہم چلانے کے لئے بھی تین مہینے ناکافی ہیں ایک حلقہ خیبرپختونخوا کے مجموعی رقبے سے زیادہ بڑا ہے یہ قرار داد منظور کرکے اس پر عملدرآمد کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے اور سینٹ میں جہاں ہمارے صوبے کی ایک مضبوط آواز موجود ہے تمام سیاسی جماعتوں کے سینیٹرز سے استدعا کی جائے کہ وہ صوبے کے لئے آواز بلند کریں۔

انہوں نے کہا کہ خاران اور واشک آبادی کے فارمولے کے آخری درجے سے اوپر ہیں مگر واشک کا حلقہ ختم کرنا ناانصافی ہے ۔ سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر حامدخان اچکزئی نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حلقہ بندیوں میں صوبے میں چاہے کہیں بھی کسی سے بھی ناانصافی ہو اس کی مذمت کریں گے ہم ماضی میں کہتے رہے کہ کوئٹہ اور چاغی ایک طویل حلقہ ہے چاغی اور دالبندین پر مشتمل الگ حلقہ بنایا اور زیارت کو کوئٹہ میں شامل کیا جائے مگر اس کے برعکس زیارت کو پشین میں شامل کردیا گیا جبکہ پشین کی قومی اسمبلی کا حلقہ آبادی کے فارمولے پر پورا اترتا تھا ۔

دوسری جانب صوبائی اسمبلی کی جو حلقہ بندیاں کی گئیں محسوس ہوتا ہے کہ آنکھیں بند کرکے کی گئی ہیں ایک جانب قومی اسمبلی کا ایک حلقہ چار لاکھ نفوس پر مشتمل ہے تو دوسری جانب چمن کی صوبائی اسمبلی کی نشست سوا چار لاکھ نفوس پر بنائی گئی ہے سمجھ سے بالا تر ہے ۔حلقہ بندیاں آبادی ، رقبے کو مد نظر رکھ کر صوبے بھر میں یکساں انداز میں کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ، سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندوں کی مشاورت کے بغیر حلقہ بندیاں قابل قبول نہیں ۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ جہاں بھی عوام کی نمائندگی کم ہو وہاں عوام کی آواز نہیں سنی جاتی ہماری بھی وفاق میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ دنیا میں کہیں بھی آبادی گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی ہے مگر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے حلقے کی آبادی کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست ہی ختم ہوگئی حقائق کو دیکھنا ہوگا کہ وہاں پر انسرجنسی کے باعث مردم شماری مکمل طور پر نہ ہوسکی یہی صورتحال پنجگور کی تھی یقین دہانی کے باوجود پنجگور کی ایک نشست کم کردی گئی دوسری جانب جو حلقہ بندیاں کی گئی ہیں ایک حلقہ لاکھوں نفوس اور ہزاروں کلو میٹر پر مشتمل ہے ہماری آواز یہاں سے کوئی نہیں سنے گا ہمیں فوری طور پر سینٹ میں اس مسئلے کو اٹھانا ہوگا ۔

سینٹ میں قرار داد لانی ہوگی ورنہ کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر سینٹ میں مسئلے کو اٹھایا جائے ۔جمعیت علماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے نئی حلقہ بندیوں کو سمجھ سے بالا تر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر فیصلہ کرنے والوں نے زمینی حقائق کو نظر انداز کردیا ہے‘ تاریخی رشتوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور اس پر یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ پشتونوں اور بلوچوں کے حلقے الگ کئے گئے دونوں اقوام صدیوں سے بھائیوں کی طرح آباد ہیں انہیں کوئی ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتا ہم موجودہ حلقہ بندیوں کو کسی صورت تسلیم نہیں کرتے‘ حقائق کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جائیں‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے پر سینٹ میں قرار داد لائی جائے اور اس مسئلے کوسنجیدگی سے لیا جائے ۔

نیشنل پارٹی کے رکن رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ وفاق میں بلوچستان کے نمائندوں نے وہ حق ادا نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہئے تھا ۔ فاٹا کے نمائندوں نے کم ہونے کے باوجود حلقہ بندیوں پر اپنے تحفظات منوائے اور انہیں ٹھیک کروایا‘ بلوچستان سے قومی اسمبلی کی ایک نشست ساڑھے سات لاکھ آبادی پر بن رہی ہے میری تجاویز ہیں کہ بلوچستان میںقومی اسمبلی کی حلقہ بندیاں آبادی اور رقبے کو مد نظر رکھتے ہوئے تین لاکھ آبادی جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست ایک لاکھ کی آبادی پر تشکیل دی جائے ۔

انہوں نے بلوچستان اسمبلی سے متعلق عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے دیئے گئے بیان کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی ۔نیشنل پارٹی نواب محمدخان شاہوانی نے کہا کہ حلقہ بندیاں غلط انداز میں کی گئی ہیں صوبے کے تاریخی علاقوں اورپس منظر سے ناواقف افراد نے اپنی مرضی کے حلقے بنادیئے ہمارے ایک حلقے میں چار سو پولنگ سٹیشن بن رہے ہیں جس کے لئے ہمیں ایک ہزار سے زائد ایجنٹ مقرر کرنے ہوں گے جو ایک دن کے اندر پانچ پانچ اضلاع میں جائیں گے ایسا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے یہ تو الیکشن کی صورتحال ہی تبدیل کرنے والی بات ہے الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ حلقہ بندیوں پر نظر ثانی کرے ۔

نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے کہا کہ یہ قرار داد عام نہیں اس پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہئے بلوچستان میں ایسے حلقے بھی ہیں جو ایران کی سرحد سے شروع ہو کر افغانستان کی سرحد پر ختم ہورہے ہیں الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ بلوچستان کے مسائل کوسمجھتے ہوئے یہاں آبادی پسماندگی غربت اور رقبے کو مد نظر رکھ کر حلقہ بندیاں کی جائیں ۔ اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ بغیر کسی نقشے کے تیاری کے حلقہ بندیاں کردی گئیں اس کو ہم کیسے دیکھیں ، ہمارے بعض اضلاع ایسے ہیں جن کی آبادیاں دس لاکھ اور کچھ کی ڈیڑھ لاکھ ہے اور ان دونوں کو برابر حیثیت دی گئی ہے جو درست نہیں ہے ۔

ہمارا قومی اسمبلی کا ایک حلقہ ڈیرہ اسماعیل خان سے شروع ہو کر خانوزئی اور دوسرا ڈیرہ غازیخان سے شروع ہو کر سپین کاریز تک ہے کسی بھی امیدوار کے لئے اتنے بڑے حلقے میں انتخابی مہم چلانا بھی ناممکن ہے ہمارے 7سو اور8سو کلو میٹر پر مشتمل حلقے ہیں تمام سیاسی جماعتوں کو نئی حلقہ بندیوں پر اعتراض ہے اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے ہمیں ایسا طریقہ کار بنانا ہوگا جس سے بہتری آئے‘ الیکشن کمیشن کے حکام کی جانب سے ہمیں کہا گیا کہ ہم پٹوار سرکل نہیں توڑ سکتے عجیب بات ہے ۔

دوسری جانب ڈویژن توڑے گئے ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے کم از کم ڈویژنوں اور علاقوں ، زبانوں کا خیال رکھا جائے یوں محسوس ہورہا ہے کہ حالات کو انتخابات کے التواء کی جانب لیجایا جارہا ہے تمام وقت حلقہ بندیوں میں لگ جائے گا تو پھر انتخابات کب ہوں گے‘ ہرنائی کے ایک حلقے کی آبادی 38ہزار تھی مگر مردم شماری میں اسی10ہزار جبکہ خوست میں مردم شماری میں26ہزار کی آبادی آئی جسے صرف12ہزار ظاہر کیا گیا جس پر ہم نے ایک درخواست دی فیصلہ آیا کہ پانچ فیصد مردم شماری دوبارہ ہوگی مگر یہ بھی نہیں ہوسکا‘ دوسری طرف حلقہ بندیاں کردی گئی ہیں حکومت کو اس کے بارے میں کچھ علم نہیں ، بتایا جائے کہ پھر کس نے اختیارات استعمال کرتے ہوئے حلقہ بندیاں کیں ذمہ داروں سے جواب طلب کیا جائے۔

انہوں نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی اس سلسلے میں ہماری مدد کریں ۔صوبہ لاوارث نہیں مردم شماری اور الیکشن کمیشن کے حکام کو یہاں بلایا جائے پوری دنیا میں آبادی کے اضافے کے عالمی معیار کے برعکس ہرنائی کی آبادی کم ظاہر کی گئی ہے ۔ صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ میں کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں وزیراعظم کی موجودگی میں میں نے حلقہ بندیوں کا مسئلہ اٹھایا تھا وزیراعظم نے ہمیں اس بات کااختیار دیا تھا کہ ہم صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی حلقہ بندیوں کا فارمولہ خود طے کرلیں‘ قومی اسمبلی کی نشستوں کو الیکشن کمیشن دیکھے اس وقت مجھ سمیت مجیب الرحمان محمد حسنی ، محمدخان لہڑی ، انجینئر زمرک خان اور سینیٹر شاہزیب درانی نے زور دیا تھا کہ ہم حلقہ بندی خود کریں گے اور ہم نے فارمولہ بھی بنا کر نواب زہری کو دینے کی بات کی مگر موجودہ اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال اور سابق اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے متحد ہو کر کہا کہ حلقوں کو نہ چھیڑا جائے۔

سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ نہ تو ہم الیکشن کمیشن اور نہ ٹریبونل میں جانے کی بات کررہے ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ اس قرار داد کو یہاں سے منظور کرکے سینٹ سے آئینی ترمیم منظور کرائی جاسکتی ہے‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت تمام بڑی جماعتوں سے بات کرکے حلقہ بندیوں کو درست کراسکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم بالکل نواز شریف کے اتحادی تھے اور ہیں اور اب بھی وزیراعظم سے بات کرکے کوشش کریں گے کہ سینٹ کے دوستوںکے تعاون سے یہ قرار داد منظور کرائیں ۔

اس موقع پر سپیکر راحیلہ حمید درانی نے کہا کہ ارکان کی جانب سے نہایت مثبت تجاویز اور اچھی بحث ہوئی ‘ ارکان کی رائے بھی سامنے آئی یہ ایک نہایت ہی اہم عوامی نوعیت کا سنجیدہ مسئلہ ہے ‘ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیاں کی ہیں جن پر ارکان کے تحفظات سنجیدہ ہیں ۔الیکشن کمیشن اس سلسلے میں ایسے اقدامات کرے جس سے یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے طے پائے ہمارے سینیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ارکان بلوچستان اسمبلی کی مشاورت سے اس مسئلے کو اجاگر کریں‘ الیکشن کمیشن اور مردم شماری کے حکام بھی ارکان کو بریفنگ دیں۔

انہوں نے کہا کہ اس مسئلے پر جلد سپیکر چیمبر میں ارکان کے لئے بریفنگ کا اہتمام کیا جائے گا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ اس مسئلے پر پارلیمانی لیڈروں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جس پر سپیکر نے تمام پارلیمانی لیڈروں پر مشتمل کمیٹی قائم کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ حلقہ بندیاں اور مردم شماری اہم مسئلہ ہے اس پر سپیکر چیمبر میں حکام سے بات کرکے مسئلے کو حل کیا جائے گا۔ بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی۔ سپیکر نے اجلاس منگل20مارچ سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔