نواز شریف کو اپنے موقف سے آگاہ کیا ہمیں عدلیہ اور افواج سے لڑائی نہیں کرنی چاہیے ،ْچوہدری نثار علی

اعتزاز احسن میری چھوڑیں، اپنی پارٹی کی فکر کریں،انتخابی حلقے میں میرا متبادل تلاش کرنیوالوں کی الیکشن میں ضمانتیں ضبط ہونگی ،کوئی فاروڈ بلاک بن رہا ہے، نہ کوئی دھڑے بندی ہو رہی ہے مشرف کا نام حکومت نے نہیں عدالت نے ای سی ایل سے نکالا ،ْ علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت عدالت نے دی ، وزارت داخلہ کسی بھی شخص کی واپسی کی گارنٹی نہیں لیتی ،ْپاکستان کی ویزا پالیسی مزید سخت ہونی چاہیے ،ْ سیاست اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے راستہ نکالنے کا نام ہے ،ْ جوتے مارنا پاکستان میں افراتفری ڈالنے کا عمل ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ،ْ سابق وزیر داخلہ کی میڈیا سے بات چیت

ہفتہ 17 مارچ 2018 21:49

نواز شریف کو اپنے موقف سے آگاہ کیا ہمیں عدلیہ اور افواج سے لڑائی نہیں ..
ٹیکسلا (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 مارچ2018ء) مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ نواز شریف کو اپنے موقف سے آگاہ کیا ہمیں عدلیہ اور افواج سے لڑائی نہیں کرنی چاہیے ،ْپرویز مشرف کا نام حکومت نے نہیں عدالت نے ای سی ایل سے نکالا ،ْ علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت عدالت نے دی اور وزارت داخلہ کسی بھی شخص کی واپسی کی گارنٹی نہیں لیتی ،ْپاکستان کی ویزا پالیسی مزید سخت ہونی چاہیے ،ْ سیاست اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے راستہ نکالنے کا نام ہے ،ْ جوتے مارنا پاکستان میں افراتفری ڈالنے کا عمل ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ،ْ انتخابی حلقے میں جو لوگ میرے متبادل کی تلاش کررہے ہیں ان کی الیکشن میں ضمانت ضبط ہوگی ،ْکوئی فاروڈ بلاک نہیں بن رہا اور نہ کوئی دھڑے بندی ہورہی ہے ۔

(جاری ہے)

پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ جب ہم نے 2013 میں حکومت سنبھالی تو ویزے کے معاملات بہت مشکلات کا شکار تھے لیکن وزارت داخلہ نے اس حوالے سے پالیسی مرتب کی۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ میں نے یہ طے کیا کہ جس طرح سے کوئی ملک ہمیں ویزا دیتا ہے ہم بھی اسے اسی طرح اسے ویزا دیں گے اور کوئی ملک ہم نے جتنی فیس وصول کرتا ہے ہم بھی اس ملک سے اتنی ہی فیس وصول کریں گے۔

سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ایسے ایسے لوگ ویزا لے کر پاکستان آئے جو ملک کی سیکیورٹی کیلئے بہت ہی تشویشناک تھے ،ْاسلام آباد میں ایسے ایسے لوگ آئے جن کا حکومت کو بھی علم نہیں کہ وہ کیوں پاکستان میں رہ رہے ہیں لیکن میں نے 400 گھروں کے دروازے کھلوائے تو کہا گیا کہ یہ لوگ کو سفارتکار ہیں۔انہوںنے کہاکہ میرا ایک ہی سوال تھا کہ مجھے دنیا کا کوئی ملک بتائیں جہاں سفارتکار رہتے ہوں اور حکومت کو اس کا علم نہ ہو، بدقسمتی ہے کہ اس ملک میں لوگ چیزوں کو بہت جلد بھول جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ویزا پالیسی میں سختی کی اور اسے مزید سخت ہونا چاہیے، اگر کوئی میرے فیصلوں کو چیلنج کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے عوامی فورم اور عدالت موجود ہے۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اسمبلی میں کہا گیا کہ حکومت کی ای سی ایل کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ہے جس پر ہمارے پارلیمانی سیکریٹری نے بتایا کہ ہماری پالیسی میرٹ کی پالیسی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2013 سے پہلے ای سی ایل کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں تھی ،ْاگر میاں بیوی کا بھی جھگڑا ہو جاتا تھا تو سیکرٹری وزارت داخلہ یا وزیر کے کہنے پر نام ای سی ایل میں ڈال دیا جاتا تھا لیکن ہم اس حوالے سے باقاعدہ پالیسی لے کر آئے جسے قانونی شکل دی گئی۔انہوںنے کہا کہ ای سی ایل میں کسی کا نام ڈالنے کا اختیار وزیر یا سیکریٹری سے لے کر کمیٹی کے سپرد کیا جسے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں، نیب، ایف آئی اے،انٹیلی جنس ایجنسیز، جنرل ہیڈ کوارٹرز اور نینکنگ کورٹس کی جانب سے جن لوگوں کے نام آئیں ان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں، اگر کمیٹی کسی کام نام ای سی ایل میں ڈالنے سے اتفاق نہیں کرتی تو وہ تحریری صورت میں متعلقہ ادارے کو خط لکھ دے۔

جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے چوہدری نثار نے کہا کہ جو لوگ ہمیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ پرویز مشرف کا نام ڈھائی سال تک ای سی ایل میں رہا اور ہماری پالیسی ہے کہ اگر تین سال تک کسی کے کیس کا فیصلہ نہ ہو تو اس کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جاتا ہے۔سابق وزیر داخلہ نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا جسے ہم نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ اگر 15 روز میں حکومت نے فیصلے کے خلاف اپیل نہ کی تو پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا جائیگا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا لیکن سپریم کورٹ نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔انہوںنے کہاکہ پرویز مشرف کو علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت عدالت نے دی اور وزارت داخلہ کسی بھی شخص کی واپسی کی گارنٹی نہیں لیتی۔ مسلم لیگ (ن) سے تحفظات سے متعلق پوچھے گئے سوال پر چوہدری نثار نے کہا کہ پارٹی معاملات پر پارٹی کے اندر ہی بات کرتا ہوں اور میں لوکل کنونشن میں کبھی نہیں گیا ،ْ کس جگہ گیا اور کس جگہ نہیں یہ پارٹی معاملات ہیں ،ْجو تحفظات ہیں ان پر پارٹی کے اندر کروں گا اور جو چیزیں پبلک کرنی ہیں وہ کروں گا لیکن اس وقت تک بہت ساری چیزوں کی وضاحت کا وقت بہت قریب آ چکا ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ گزشتہ چند مہینوں سے جو معاملات چل رہے ہیں انہیں بڑی خاموشی سے ہینڈل کیا ہے، اس سے زیادہ اور خاموشی کیا ہو سکتی ہے کہ میں نے کابینہ میں آنے سے معذرت کرلی اور حلقے تک محدود ہو گیا۔چوہدری نثار نے کہا کہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ بتایا جائے کہ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ کیا ہے ،ْ نواز شریف سے کہا کہ میرا مشورہ یہ ہے کہ ہمیں عدلیہ اور پاکستانی افواج سے لڑائی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمیں اپنے منہ سیاسی مخالفین کی جانب کر لینے چاہئیں۔

چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ میرا مشورہ یہ تھا کہ اگر ہمیں کسی قسم کا ریلیف ملنا ہے تو اسی عدالت سے ملے گا اور میں نے پاکستانی افواج سے کوئی تمغہ نہیں لینا، اداروں سے لڑائی نہ کرنے میں ہی پاکستانی قوم اور نواز شریف کی بھلائی ہے۔سیاست کوئی باکسنگ میچ نہیں ہے بلکہ سیاست اپنے اصولوں پر کمپرومائز نہ کرتے ہوئے راستہ نکالنے کا نام ہے، ہم کوئی راستہ نکالنا چاہیے جو سب کیلئے بہتر ہو۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ جوتے مارنا پاکستان میں افراتفری ڈالنے کا عمل ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ انتخابی حلقے میں جو لوگ میرے متبادل کی تلاش کررہے ہیں ان کی الیکشن میں ضمانت ضبط ہوگی، اپنے انتخابی حلقے میں مسلم لیگ (ن) کی ایک ایک اینٹ میں نے رکھی ہے، مجھ سے پہلے تو اس حلقے سے مسلم لیگ کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوتی تھیں۔

انہوںنے کہاکہ کوئی فاروڈ بلاک نہیں بن رہا اور نہ کوئی دھڑے بندی ہورہی ہے۔سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے اعلان کے بعد یہاں آنے کا مقصد مشاورت کرنا، اپنے لوگوں سے اور دوئم آئندہ ہفتے کو اگلے ہفتے کو ہسپتال کا افتتاح کرنے پر مشاورت کرنا ہے، حلقہ بندیوں کا جہاں تک تعلق ہے،1970سے یہ حلقہ 2002تک ایک حلقہ تھے،1985میں میں نے اپنی سیاست کا آغاز این اے 140سے کیا، تب سے 2002تک یہ حلقہ قائم و دائم رہا ہے اور میں متواتر ایم این اے رہا، 2002میں اس حلقے کو دو میں تقسیم کر دیا گیا تا کہ میں کامیاب نہ ہو سکوں، میرا ٹیکسلا کے عوام سے لازوال رشتہ ہے ہے، اس لئے میں نے دونوں حلقوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور یہ سلسلہ 2013تک جاری رہا، نئی حلقہ بندیوں کے تحت میرا آبائی حلقہ این اے 59یکجا ہو گیا ہے، جہاں 33سال کا رشتہ ہو وہ مضبوط رشتہ ہوتا ہے، تو اس سلسلے میں مشاورت کرنے میں آیا تھا، یہ مشاورت مئی تک جاری رہے گی اور حالات کا بھی جائزہ لوں گا اس کے بعد فیصلہ کروں گا کہ دونوں حلقوں سے الیکشن لڑنا ہے یا ایک حلقے سے لڑوں ۔

ایک سوال کے جواب میں چودھری نثار نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سی33 سالہ رفاقت ہے ،میری پارٹی اور میں اپنے معاملات طے کرینگے اعتزاز احسن کو اپنی پارٹی کی فکر کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اعتزاز احسن یہ دیکھیں کہ زرداری صاحب مقبول ہیں یا بلاول بھٹو زرداری۔اعتزاز ایک دن بلاول اور بھٹو کے ووٹ بینک کا بھی موزانہ کرلیں۔