حکومت ،اپوزیشن کی بجائے تیسرے فریق کا نگران سیٹ اپ کا فیصلہ کرنیکی باتیں جمہوری قوتوں کا امتحان ہے ‘ وزیر داخلہ

اپوزیشن کو دعوت دیتا ہوں انہیں شفاف طریقے سے نگران سیٹ اپ پر اتفاق کرنا چاہئے، یقین ہے انتخابات وقت پر ہوں گے وزارت داخلہ کے فیصلے کہیں اور نہیں ہوتے بلکہ آئین و قانون کی کتاب کے مطابق ہوتے ہیں ،ای سی ایل سے متعلقہ 600 سے زائد کیسز کابینہ کو بھجوا دئیے احتساب عدالت نے فیصلے میں ساری دنیا کی لوٹی ہوئی دولت بھی نواز شریف پر ڈال دی تو اس پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا‘ احسن اقبال

ہفتہ 17 مارچ 2018 15:22

حکومت ،اپوزیشن کی بجائے تیسرے فریق کا نگران سیٹ اپ کا فیصلہ کرنیکی ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 مارچ2018ء) وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی بجائے تیسرے فریق کی جانب سے نگران سیٹ اپ کا فیصلہ کرنے کی باتیں جمہوری قوتوں کا امتحان ہے ،اپوزیشن کو دعوت دیتا ہوں کہ انہیں شفاف طریقے سے نگران سیٹ اپ پر اتفاق کرنا چاہئے، یقین ہے کہ سیاسی جماعتیں وفاق اور صوبوں میں غیر جانبدار نگران سیٹ اپ پر اتفاق کریں گی اور انتخابات وقت پر ہوں گے،وزارت داخلہ کے فیصلے کہیں اورنہیں ہوتے بلکہ آئین و قانون کی کتاب کے مطابق ہوتے ہیں ،سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اگست 2016ء کے بعد ای سی ایل میں نام ڈالنے کے 600سے زائد کیسز وفاقی کابینہ کو بھجوا دئیے گئے ہیں ،ہمیشہ انتخابات سے قبل ہی کیوں احتساب تحریک شروع ہوتی ہے ، (ن) لیگ کے خلاف یکطرفہ کارروائی سے عوام کو پری پول رگنگ نظر آئے گی،نواز شریف کے خلاف ٹرائل میں شفافیت نہیں اس لئے ووٹرز اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ،اگر احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں ساری دنیا کی لوٹی ہوئی دولت بھی نواز شریف پر ڈال دی تو اس پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جوہرٹائون میں نادرا موبائل رجسٹریشن کارز پراجیکٹ کی تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کر تے ہوئے کیا ۔ احسن اقبال نے کہا کہ پہلے یہ گمان تھاکہ صوبائی اسمبلیاںتحلیل کر دی جائیں گی یا کر ادی جائیں گی اور سینیٹ انتخابات نہیں ہوں گے لیکن الحمدا للہ ایسا نہیں ہوا اورسینیٹ انتخابات وقت پر منعقد ہوئے اور یہ جمہوری عمل کی کامیابی کے تسلسل کی نشانی ہے ۔

اس انتخاب میں جیتنے والے ہار گئے اور ہارنے والے جیت گئے لیکن عوام میں کھل کر یہ بحث سامنے آئی حالانکہ اس سے قبل لکڑ ہضم ، پتھر ہضم اور مٹی پائو کا فارمولہ ہوتا تھا لیکن آج پاکستان کے عوام مشاہدہ کر رہے ہیںاور جائزہ لے رہے ہیں او ر اپنی رائے قائم کر رہے ہیں اور یہ جمہوری عمل کا ارتقاء ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج سے بیس یا تیس سال پہلے جو کھیل کھیلے جاتے تھا آج وہ ممکن نہیں ، پاکستان کا ہر باشندہ با شعور ہے ، سوشل میڈیا اور میڈیا پر چیز نظر میں ہوتی ہے اور اس کا تجزیہ ہوتا ہے ۔

انہوںنے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ جو عمل روا رکھا گیا ہے اس سے ان کی مقبولیت کم نہیں ہو رہی بلکہ عوام کی ان سے نہ صرف ہمدردی بڑھ رہی ہے بلکہ ان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم احتساب کے خلاف نہیں بلکہ اسے سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف ہیں ۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل بھی احتساب تحریک شروع ہوئی اور آج جب 2018ء میں انتخابات ہونے جارہے ہیں تو دوبارہ یہ تحریک شروع ہو گئی ہے ،درمیان کے عرصے میں احتساب کیوں یاد نہیں آتا ۔

یہ واضح بات ہے کہ یہ سیاسی ایجنڈا ہے خاص طو رپر (ن) لیگ کے خلاف یکطرفہ معاملہ ہوگا تو عوام کو پری پول رگنگ نظر آئے گی ۔ انہوں نے کہا کہ جب غالب امکان یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرے گی تو کچھ قوتیں اس سے خائف ہیں۔اپوزیشن اور وہ ناکام قوتیں جو ووٹ کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کو شکست نہیں دے سکتیںوہ اسے عدالت اور چور دروازے کے ذریعے کمزور کرنے کا سوچ رہی ہیں ،اس سے قومی اداروں کا تشخص خراب ہوتا ہے ، عدلیہ انصاف کا گھر ہے اور اس کے وقار کوبر قرا رہنا چاہیے اور اگر عوام کا اس گھر سے ایمان اٹھ جائے تو معاشرہ جنگل بن سکتا ہے ، جسٹس دوست محمد خان کی پشاور میں تقریر لمحہ فکریہ ہے ۔

اگر ادارے متنازعہ ہوں گے تو یہ قومی نقصان ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ دشمن سی پیک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔ہم نے ابھی پہلی کامیابی حاصل کی ہے اور لمبا سفر طے کرنا ہے ،ہمیں انتشار کے تمام منصوبے ناکام بنانے ہیں ۔ اگر کسی سیاسی جماعت ٹارگٹ کیا جائے گا تو پھر کوئی اعتبار نہیں کرے گا ۔ نواز شریف کے ٹرائل میںشفافیت نہیں اس لئے لوگوں کے سوال پیدا ہو چکے ہیں ، اگر احتساب عدالت اپنے فیصلے میں پوری دنیا کی لوٹی ہوئی دولت بھی نواز شریف پر ڈال دے گی تو ووٹر تسلیم کرنے کو تیار نہیں اوریہ عمل انتقام ہو گا ۔

انہوں نے کہا کہ سب کو پتہ ہے کہ کھیل کیا کھیلا جارہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کہ اس طرح کے اقدامات سے مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کی مقبولیت میں ڈینٹ نہیں ڈالا جا سکتا۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگست 2016ء میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جہاں پر بھی حکومت پاکستان درج ہے وہ وزیر اعظم یا وزیر نہیں بلکہ کابینہ ہے ۔

اگست 2016ء کے بعد وزارت داخلہ نے اپنے طریق کار میں تبدیلی لائی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ای سی ایل بھی حکومت پاکستان کا اختیار ہے کہ وہ کسی کا نام ڈال یا نکال سکتی ہے اور فیصلہ کیا گیا کہ ایسے تمام کیسز سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کابینہ کوبھیجے جانے چاہئیں ۔ اگست 2016کے بعد 600سے زائد کیسز جن کے نام ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں یا ڈالنے ہیں انہیں کابینہ کے پاس بھیجا ہے تاکہ قانون کے مطابق عمل ہو سکے ۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جنرل پرویز مسرف اب جنرل نہیں ہیں کیونکہ وہ ایک سیاسی جماعت کے سربرا ہ اور سیاستدان ہیں ،انہیں وہ استحقاق نہیں مانگنا چاہیے جو حاضر سروس جنرل کو حاصل ہو سکتا ہے ۔ اگر پاکستان کے سابق وزیر عظم کینسر میں مبتلا اپنی اہلیہ کے علاج کی بجائے دن میں دو دو مرتبہ عدالت میں حاضری لگوا سکتے ہیں تو سابق صد رجنرل (ر) پرویز مشرف تو ماشا اللہ صحتمند، توانا اور طاقتو ربھی ہیں انہیں رول آف لاء کے لئے عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہیے ۔

عدالت نے جو حکم دیا پاکستان کے اداروں نے اس کے مطابق عمل کیا ہے ۔پرویز مشرف کے وکیل سے جواب موصول ہوا ہے کہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہونے کے لئے تیار ہیں ۔ انہوں نے سکیورٹی خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن حکومت انہیں سکیورٹی فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے اور وہ نہ گھبرائیں انہیں پہلے بھی بحیثیت سابق صدر سکیورٹی حاصل تھی اور اب بھی حاصل ہو گی جیسے سب کو ہوتی ہے ۔

عدالت کے سامنے پیش ہونے سے ان کی عزت ہو گی اگر ایسا نہیں ہوگا تو اس سے ان کے اندر کا جرم ظاہر ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ایک بیان سے میری آنکھیں کھٹکی ہیں کہ مجھے نئی عدلیہ سے انصاف کی توقع ہے ان کے ذہن میں ڈرائی کلینگ یا کوئی اور پروگرام چل رہا ہے وہ کیا سوچ ہے نئی عدلیہ سے کس طرح سے انصاف کی کلین چٹ مل جائے گی ان سے ضرور سوال کیا جانا چاہیے ۔

انہوںنے چوہدری نثار کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ میرے پیشرو ہیں اور میری تربیت نہیں کہ مجھے کسی کی کردار کشی کرنی چاہیے ۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ وزارت داخلہ میں فیصلے کہیں اور نہیں ہوتے بلکہ آئین و قانون کی کتاب کے مطابق ہوتے ہیں۔ انہوں نے قبل ازیں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ابھرتے ہوئے پاکستان کے سفر کو جاری رکھنا ہے اور اس کے لئے سیاسی استحکام اور امن کے تسلسل کو یقینی بنانا ہوگا ۔

انہوں نے یہ باتیں ہور ہی ہیں کہ نگران سیٹ اپ کے لئے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق نہیں ہوگا اور تیسرا فریق نگران سیٹ اپ بنائے گا ۔ یہ جمہوری قوتوں کا امتحان ہے ۔ میں قائد حزب اختلاف ،اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دیتا ہوں کہ اب اس مرحلے میں دو ماہ رہ گئے ہیں شفاف طریقے سے نگران سیٹ اپ پر اتفاق رائے کیا جائے تاکہ ہم دنیا کو ثابت کر سکیں کہ جمہوری قوتیں جتنے مرضی اختلاف رائے رکھتی ہوںمگر آئین اور جمہوری عمل سے کوئی اختلاف نہیں ، جمہوری قوتیں جتنا مرضی اختلاف کر لیں لیکن قومی اجتماعی معاملات میں اتفاق رائے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔

مجھے امید ہے کہ صاف اور شفاف طریقے سے غیر جانبدارانہ نگران سیٹ پر اتفاق رائے کیا جائے گا اور انتخابات وقت پر ہوں گے ۔انہوںنے کہا کہ ملک میں ایسی قوتیں ہیں جو جمہوری عمل کو روکنے کی کوششیں کرتی رہتی ہیں۔پاکستان کے 20 کروڑ عوام جمہوریت کے مالک ہیں اور ملک میں جمہوری قوتیں اورجمہوری عمل مضبوط ہے، پاکستان کے عوام ہی جمہوری عمل کی ضمانت اورطاقت ہیں،ملک میں ایسی قوتیں ہیں جو جمہوری عمل سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ ناکام قوتیں جمہوریت کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں، انتخابات اور جمہوریت کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے ایسے عمل کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں اتنے کھیل کھیلے گئے ہیں کہ لوگ ان پر اعتبار کرنا بھول گئے ہیں،بیس تیس سال پہلے کھیلے جانے والے کھیل اب ممکن نہیں ہیں۔

احسن اقبال نے کہا کہ 5 سال پہلے کا اور آج کا پاکستان مختلف ہے، ہم نے پانچ سال میں پاکستان کارخ بدلا ہے، ہم نے دہشتگردی کی کمرتوڑی ہے، پانچ سال پہلے پاکستان کی معیشت جمود کا شکار تھی، 5سال پہلے کراچی میں بھتے کی پرچیاں ملی تھیں اور اب پی ایس ایل کی ٹکٹیں فروخت ہو رہی ہیں، پہلے پاکستان کوخطرناک ملک سمجھا جاتا تھا اب معاشی طور پر مضبوط ملک بن گیا ہے، اکا دکا واقعہ کے علاوہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہو رہا۔