سپریم کورٹ ، مری میں غیرقانونی ہائوسنگ سکیموں کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت

جمعرات 15 مارچ 2018 23:22

سپریم کورٹ ، مری میں غیرقانونی ہائوسنگ سکیموں کے خلاف ازخود نوٹس کیس ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 مارچ2018ء) سپریم کورٹ نے مری میں غیرقانونی ہائوسنگ سکیموں کے خلاف ازخود نوٹس کیس میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو آئندہ سماعت پر اپنی گزارشات مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ جمعرات کوجسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے مری میںجنگلات کی غیرقانونی کٹائی کے بعد وہاںہائوسنگ سوسائٹیوں کی جانب سے تعمیرات کیخلاف کیس کی سماعت کی، اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے مری میں غیرقانونی تعمیرات کے حوالے سے اپنی رپورٹ جمع کراتے ہوئے کہاکہ مری سمیت پہاڑی علاقوں میں جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنے کے لیے ایک سب کمیٹی بنا دی ہے، جس کے دو اجلاسوں میں اس معاملے پر تفصیلی غوروخوض کرلیاگیا ہے اورتوقع ہے کہ بہت جلد سفارشات تیارکرلی جائیں گی،جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ان سے کہاکہ جب کسی معاملے کو طول دینا ہو تاہے تو اس پر کمیٹی بنا دی جاتی ہے، کمیٹی کا مطلب معاملے کو لٹکانا ہوتا ہے،متعلقہ حکام عدالت کو بتائیں کہ مری میں جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے،جسٹس مقبول باقر نے ان سے کہا کہ بے شک کمیٹی بنائی گئی ہے لیکن اس کی طرف سے کام مکمل کرنے کا وقت نہیں دیا گیا ، عدالت کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ کہ رپورٹ میں تین تحصیلوں کو ماحولیاتی لحاظ سے حساس قرار دینے کی وجوہات بتائی گئی ہیں، جسٹس فیصل عرب نے ان سے استفسار کیاکہ کیا علاقے میں ہر قسم کی تعمیرات پر پابندی عائد کی گئی ہے یا مقامی لوگ پہاڑوں پر گھر بنا سکتے ہیں، سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ بڑے شہروں میں سیوریج ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے، جبکہ پنجاب کے شہروں میں سیوریج اور صفائی کا نظام ناکام ثابت ہو گیا ہے، راولپنڈی کے ملحقہ علاقے تو ناخوشگوار تصویر دکھاتے ہیں،سملی ڈیم میں بھی سیوریج کا پانی جا رہا ہے، دوسری جانب حکومت کو پانی کی آلودگی اور بے ہنگم رہائشی آبادی کی پرواہ نہیں، عدالت کے استفسارپرایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہے توجسٹس اعجاز افضل خان نے ان سے کہاکہ عزم اور کمٹمنٹ صرف کاغذات میں ہے عملی طور پر کوئی کام نہیں ہو رہا، مائیکرو اسکوپ سے دیکھنے پر بھی کوئی عملی کام دکھائی نہیں دیتا۔

(جاری ہے)

سماعت کے دورا ن جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کیا ہم بھی فضلے سے بجلی پیدا کر سکتے ہیں اور کیا پاکستان میں اس سطح کی صلاحیت موجود ہے، توایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہمارے پاس اس شعبے میں ڈاکٹریٹ کرنے والے افسر ان موجود ہیں جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ پلانٹ توسملی ڈیم میں بھی لگا ہے مگر وہ کام نہیں کرتا،۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ فیصلہ کیا گیاہے کہ راولپنڈی کی تین تحصیلوں کی ماسٹر پلاننگ کی جائے گی جن میں تحصیل مری، کہوٹہ اور کوٹلی ستیاں ماحولیاتی لحاظ سے حساس قراردیئے گئے ہیں۔

جسٹس فیصل عرب نے ان سے کہاکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رہائشی تعمیرات کو محدود نہیں کیا جاسکا تو پہاڑوں پر کیسے کریں گے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ ہم مشکلات یا مصائب سے سبق نہیں سیکھتے، کیونکہ سیلاب آتے اور شہروں کو متاثر کرتے ہیں،دنیا پانی کو ماضی بعید کی طرح شفاف رکھنے کی کوشش کر رہی ہے یہاں پہلی مرتبہ 1979 ء میں بلدیاتی نظام قانون لایا گیا جس پرمزید کام کی ضرورت ہے ، سوال یہ ہے کہ جب ماسٹر پلان ہی نہیں تو اس کی خلاف ورزی پر تعمیرات کیسے گرائی جائیں گی، جس پرایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایاکہ تین تحصیلوں میں 13 ہائوسنگ سوسائٹیز کو نوٹس بھیج دئیے گئے ہیں جبکہ 9 ہائوسنگ سوسائٹیز کا تعمیراتی کام رکوا دیا گیاہے۔

اس کے ساتھ ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی پر بھی متعلقہ اداروں یاافراد کو نوٹس بھجوائے گئے ہیں، اس کے ساتھ کہوٹہ میں حساس ادارے کو اپنی حدود کی نشاندہی کیلئے کہا گیا ہے، ہم اپنی جانب سے سوسائیٹیوں کو ریگولر کرنے کی کوشش کریں گے جس پر جسٹس اعجازافضل خان نے کہاکہ نسل در نسل رہائشیوں کو تعمیرات سے نہیں روکا جا سکتا۔بعدازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل آئندہ سماعت پر اپنی گزارشات مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت 10اپریل تک ملتوی کردی۔