پی اے سی نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کا تمام ریکارڈ قبضہ میں لینے کا اے جی پی کو حکم دیدیا

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو45ارب نجی بنکوں میں دئیے جانے کا خصوصی آڈٹ 15دنوں میں کرنے کا حکم افسران کو کے پی ٹی کو اپنی ریاست بنانے کی اجازت نہیں دینگے،45 ارب نجی بنکوں کو ریوڑیوں کی طرح تقسیم کیا،کراچی کے بروکروں کا مرکزی کردار بارے افسران کے اقرار کے بعد ادارہ میں بھاری کرپشن کا امکان ہے،پی اے سی

جمعرات 15 مارچ 2018 20:44

پی اے سی نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کا تمام ریکارڈ قبضہ میں لینے کا اے جی پی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 مارچ2018ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کراچی پورٹ ٹرسٹ حکام کی طرف سی45 ارب40کروڑ روپے کی چھ بنکوں میں سرمایہ کاری کرنے کی اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ کے پی ٹی حکام نے کراچی کے مشہور بروکر سے ملکر ادارہ کے 45 ارب روپے نجی بنکوں کے حوالے کردی تھیں جبکہ حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ کے پی ٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں مبینہ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے سرکاری افسران کیخلاف مقدمات قائم کئے جائیں اور لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے۔

پی اے سی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا۔اجلاس میں وزارت میری ٹائم کے مالی سال2016-17ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ کے پی ٹی حکام گزشتہ 70سالوں سے حاصل منافع کو بہتر انداز میں لگاتے تو اب ادارہ مالی طور پر مضبوط ہوتا یہ افسوسناک بات ہے کہ گزشتہ70 سالوں میں بچت صرف45 ارب کی ہو اور یہ سرمایہ بھی کم شرح پر نجی بنکوں کے حوالے کردیاگیا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل کے پی ٹی ایڈمرل جمیل اختر کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور پی اے سی نے فوجی افسر ہونے کے باوجود کرپٹ افراد کے تحفظ کرنے اور کرپشن روکنے میں ناکامی پر جمیل اختر کے کردار پر افسوس کا اظہار کیا۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ کے پی ٹی حکام نے اپنے ہی قانون اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انویسٹمنٹ بانڈز ساڑھے نو ارب کے خرید رکھے ہیں جبکہ ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ 78ارب روپے کے خریدے گئے ہیں اسکے علاوہ نیشنل بنک میں1ارب25کروڑ جبکہ بنک الحبیب میں4ارب75کروڑ روپے ،فیصل بنک3ارب ،سونہری بنک 5 ارب25کروڑ،الفلاح بنک3ارب50 کروڑ جبکہ سندھ بنک میں 25 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری لگا رکھی ہے۔

آڈٹ حکام نے بنایا کہ بنکوں میں سرمایہ کاری غیر قانونی اقدام ہے اور بظاہر نجی بنکوں کو اربوں روپے کا فائدہ دیا گیا تھا جبکہ کم شرح پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔سید خورشید شاہ نے کہا کے پی کے اپنے مالی معاملات کا انٹرنل آڈٹ کرائے جبکہ آڈٹ حکام کو دھونس دھاندلی کے بغیر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ایڈمرل جمیل اختر نے بتایا کہ کراچی کے مشہور بروکر سراج خامخیلی کے تعاون سی45 ارب کی سرمایہ کاری کی گئی ہے جبکہ انویسٹمنٹ کمیٹی جو چیف اکاؤنٹس آفیسر ،جنرل منیجر فنانس اور منیجر فنانس پر مشتمل ہے کی مشاورت سے بنکوں میں سرمایہ کاری ہوئی ہے جسکی پیشگی اجازت کے پی ٹی 12ممبرز بورڈ سے بھی لی گئی تھی۔

پی اے سی نے آڈیٹر جنرل آفپاکستان کو ہدایت کی کہ کے پی ٹی حکام سے تمام ریکارڈ قبضہ میں لیکر 13دن کے اندر خصوصی آڈٹ کیا جائے اور کرپٹ افسران کی نشاندہی بھی کی جائے تاکہ کرپٹ افراد کو پکڑا جاسکے۔پی اے سی حکام نے کے پی ٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملات پر بحث کی اور کہا سندھ حکومت نے زمین دیگر مقاصد کے لئے دی تھی جبکہ اعلیٰ حکام نے زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنا دی اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں اربوں کی کرپشن ہووی ہے ۔

ایڈمرل جمیل اختر نے کہا یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں ہے جبکہ ہماری خواہش ہے کہ حکومت سندھ کے ساتھ عدالت کے باہر ہی معاملات درست کئے جائیں۔ایڈمرل جمیل اختر نے کہا کہ پی ٹی کی زمین قبضہ مافیا سے واگزار کرائی گئی ہے،ذمہ دار سرکاری افسران کو ملازمتوں سے فارغ کیا کیا گیا ہے جبکہ دیگر افسران کے خلاف شوکاز نوٹسز جاری ہو چکے ہیں۔پی اے سی اجلاس میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے علاوہ ڈاکٹر علوی،عذرا پیچیو،نوید قمر،سردار عاشق گوپانگ،محمود خان اچکزئی، شیخ روحیل اصغر،مصطفیٰ شاہ وغیرہ نے شرکت کی۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ 45 ارب روپے کے پی ٹی افسران نے بنکوں میں ریوڑیوں کی طرح تقسیم کئے ہیں اور قومی مفادات کے تحفظ میں ناکام ہوئے ہیں۔