پاکستان میں قید ’را‘ کے ایجنٹس با عزت طور پر بری

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 15 مارچ 2018 17:25

پاکستان میں قید ’را‘ کے ایجنٹس با عزت طور پر بری
کراچی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 15 مارچ 2018ء): کراچی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے عدم ثبوتوں کی بنا پر بھارتی خفیہ ایجنسی را کے 5 ایجنٹس کو بری کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کراچی کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے دعویٰ کیا تھا کہ محمد شفیق خان عرف پپو، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ملازم عبد الجبار عرف ظفر ٹینشن، محسن خان عرف کاشف، خالد امان عرف داد اور عادل انصاری کو 27 اگست 2015ء میں گلستان جوہر سے مقابلے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

بعد ازاں سی ٹی ڈی نے ان کے ایک اور ساتھی عادل انصاری کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔ تمام ملزمان پر بھارتی خفیہ ایجنسی را سے تعلق ہونے، بھارت سے ٹریننگ لینے، دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے اور ریاست مخالف سرگرمیوں اور اسلحہ اور گولہ بارود رکھنے جیسے الزامات عائد کیے گئے۔

(جاری ہے)

گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جانے اور دونوں اطراف کے بیانات سننے کے بعد جج نے عدم ثبوتوں کی بنا پر ملزمان پر لگائے گئے تمام چارجز ختم کر دئے۔

خیال رہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم خالد امان کا اعترافی بیان کرمنل پروسیجر کوڈ 2015ء کے سیکشن 164 کے تحت قلم بند کیا تھا۔ ملزمان کے وکیل مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ اعترافی بیان میں قانونی وزن نہیں ہے کیونکہ ملزم کے بیان ریکارڈ کیے جانے کے بعد مجسٹریٹ نے ملزم کو جیل بھیجنے کی بجائے پولیس کے حوالے کردیا تھا۔ استغاثہ کے مطابق سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ حراست میں لیے گئے ملزمان بھارت سے تربیت یافتہ را کے ایجنٹس تھے اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔

لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے رہنماء محمد انور اور دیگر دو رہنما محمود صدیقی اور محمد سلمان بھی اس کیس میں مطلوب ہیں۔ استغاثہ نے مزید بتایا تھا کہ تفتیش کے دوران ملزم امان نے بتایا کہ محمد انور اور محمود صدیقی نے انہیں بھارتی خفیہ ایجنسی را سے ٹریننگ دلوانے میں کردار ادا کیا تھا۔ امان نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیا تھا کہ تربیت کے بعد اسے حراست میں لینے کے بعد دہلی کی جیل بھیج دیا گیا تھا۔ بعد ازاں ایم کیو ایم کے رہنماء نے محمود صدیقی کے ہمراہ لندن سے آئے تھے اور انہیں جیل سے رہا کروا کے امان کو را کی مدد سے واپس پاکستان بھیجا تھا۔ خیال رہے کہ ملزمان دھماکہ خیز مواد رکھنے کی دفعہ 1908ء اور سندھ اسلحہ ایکٹ 2013ء کے کیس میں بھی نامزد ہیں۔