سوئس حکام کے تعاون سے عمودی شافٹ اینٹوں کا بھٹہ ٹیکنالوجی پر مشتمل ماڈل بھٹہ کی تعمیر زیر عمل ہے‘قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات

موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان ریلوے کی 1184 ایکڑ اراضی واگزار کرائی گئی، 3993 مقدمات کا اندراج ، 4333 ملزمان گرفتار کئے گئے ،ْاسلام آباد کے نجی تعلیمی اداروں کی اکثریت مختلف جماعتوں کے طلباء سے علیحدہ کمپیوٹر فیس وصول کر رہی ہے ،ْسی پیک کے تحت ایم ایل ون پراجیکٹ پر 8 ارب 20 کروڑ ڈالر لاگت آئے گی، منصوبے میں تاخیر نہیں کی جارہی ،ْپارلیمانی سیکرٹریوں اوروزراء کے جوابات اجلاس کے دور ان فضائی آلودگی اور ہسپتالوں کے فضلہ کو تلف کرنے کے تذکرے سے بات سیاسی آلودگی اور سیاسی فضلے تک جاپہنچی کسی بھی فیڈر میں امتیازی سلوک نہیں کیا جارہا، جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے بل ادا نہیں ہوتے ،ْعابد شیر علی رکن ساجد نواز کا بجلی کے بلز کا بنا ہوا ہار گلے میں ڈال کر اور سر پر انہی بلز کی بنی ہوئی ٹوپی پہن کر انوکھا احتجاج

جمعرات 15 مارچ 2018 16:09

سوئس حکام کے تعاون سے عمودی شافٹ اینٹوں کا بھٹہ ٹیکنالوجی پر مشتمل ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 مارچ2018ء) قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ سوئس حکام کے تعاون سے عمودی شافٹ اینٹوں کا بھٹہ ٹیکنالوجی پر مشتمل ماڈل بھٹہ کی تعمیر زیر عمل ہے‘ موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان ریلوے کی 1184 ایکڑ اراضی واگزار کرائی گئی، 3993 مقدمات کا اندراج ، 4333 ملزمان گرفتار کئے گئے ،ْاسلام آباد کے نجی تعلیمی اداروں کی اکثریت مختلف جماعتوں کے طلباء سے علیحدہ کمپیوٹر فیس وصول کر رہی ہے ،ْسی پیک کے تحت ایم ایل ون پراجیکٹ پر 8 ارب 20 کروڑ ڈالر لاگت آئے گی، منصوبے میں تاخیر نہیں کی جارہی۔

جمعرات کو وقفہ سوالات کے دوران شاہدہ اختر علی کے سوال کے جواب میں رومینہ خورشید عالم نے بتایا کہ سوئس حکام کے تعاون سے عمودی شافٹ اینٹوں کا بھٹہ ٹیکنالوجی پر مشتمل ماڈل اینٹوں کا بھٹہ کی تعمیر زیر عمل ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ ملک ہم سب کا ہے اور ہم سب نے مل کر اس کو بہتری کی طرف لانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہسپتالوں کے فضلہ کو ٹھکانے لگانے کے لئے رولز موجود ہیں ،ْ بری امام‘ بھارہ کہو‘ بنی گالہ اور مسلم کالونی کے باشندوں جو راول ڈیم کے اردگرد کے علاقوں کے تازہ پانی میں کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے ‘ کے خلاف 124کیسز رجسٹرت ہوئے۔

موسمیاتی تبدیلی کی پارلیمانی سیکرٹری رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ شعبہ صوبوں کو منتقل ہوگیا ہے۔ مرکزی حکومت صوبوں کو تمام معلومات فراہم کرتی ہے۔ مرکزی سطح پر 24 گھنٹے عالمی معیار کے تحت مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ لاہور میں سموگ کے حوالے سے تمام معلومات مل سکتی ہیں۔ رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ فضائی آلودگی کے حوالے سے درپیش ایشوز کا ازالہ بھی کیا جاتا ہے۔

عائشہ سید کے ضمنی سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری روبینہ خورشید عالم نے کہا کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ سال مانیٹرنگ کے لئے صوبوں کو 19 ملین روپے دیئے ہیں ،ْوفاق اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہا ہے۔ صوبوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ صوبوں کے ساتھ ہر تین سے چھ ماہ میں باقاعدہ اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ پارلیمانی سیکرٹری نے صوبوں سے ڈیٹا طلب کرنے کے لئے خطوط ارسال کردیئے گئے ہیں۔

پارلیمانی سیکرٹری رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ فضائی آلودگی کے سدباب کے لئے زگ زیگ کی ٹیکنالوجی کے ذریعے اینٹوں کے بھٹوں کا نظام بہتر بنایا جارہا ہے۔ شیخ صلاح الدین کے ہسپتالوں کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں روبینہ خورشید عالم نے کہا کہ ہسپتال فضلے کو تلف کرنے کے لئے بھٹی خود لگاتے ہیں اور اس کی حکومتی سطح پر باقاعدہ نگرانی کی جاتی ہے۔

مارگلہ کے علاقے میں ہوٹلوں کی تعمیر کی وجہ سے آلودگی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ ان ہوٹلوں کی تعمیر کی اجازت سی ڈی اے دیتا ہے۔ اجلاس کے دور ان پارلیمانی سیکرٹری راجہ جاوید اخلاص نے کہا کہ ریلوے کے ناجائز قبضے واگزار کرانے کے لئے ایک مربوط پالیسی پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ ریلوے پولیس اور افسران نے ان اصلاحات کے حوالے سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ،ْیہ آپریشن چھ مرحلوں میں کیا گیا ہے اور 1184 ایکڑ مختلف صوبوں اور مخالفین سے زمین واگزار کرائی گئی ہے۔

اس میں سے خیبر پختونخوا سے 45 ایکڑ‘ پنجاب سے 946‘ سندھ سے 182 اور بلوچستان سے 9 ایکڑ سے زائد زمین واگزار کرائی گئی ہے۔ راجہ جاوید اخلاص نے ضمنی سوال کے جواب میں کہا کہ تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرایا جارہا ہے اس مہم کے دوران 3993 مقدمات درج کئے گئے اور 4333 ملزمان گرفتار کئے گئے۔وزیر مملکت انجینئر بلیغ الرحمان نے بتایا کہ اسلام آباد کے نجی تعلیمی اداروں کی اکثریت مختلف جماعتوں کے طلباء سے علیحدہ کمپیوٹر فیس وصول کر رہی ہے۔

ہم نجی تعلیمی اداروں اور والدین کے لئے قابل قبول فارمولہ پر کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک گیارہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس بارے میں اقدامات تجویز کرے گی۔ انجینئر بلیغ الرحمان نے کہا کہ اسلام آباد کے 37 سکولوں میں تربیت کے طور پر ناظرہ شروع کیا گیا ہے۔ نئے تدریسی سال کے آغاز پر تمام سکولوں میں ناظرہ شروع کرایا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ قانون نجی اور سرکاری دونوں شعبوں پر نافذ ہوتا ہے۔ ہمیں اس پر عملدرآمد کے لئے وقت درکار ہوگا۔ اس قانون کے تحت تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں ناظرہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے بتایا کہ ہمارے دور میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے لئے کوئی فنڈز کا مسئلہ نہیں رہا ،ْ ہم نے پہلے مرحلے میں 22 اور پھر 2.7 ارب روپے کی لاگت سے 200 سکولوں کی مرمت کی۔

یہ سکول گرائونڈ‘ کلاس روم کی بہتری‘ ٹرانسپورٹ کی سہولت کے لئے ہے‘ یہ منصوبہ جاری ہے۔ یہ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی خصوصی دلچسپی سے شروع کیا گیا تھا۔پارلیمانی سیکرٹری راجہ جاوید اخلاص نے بتایا کہ چین‘ پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت ایم ایل ون پراجیکٹ میں تاخیر نہیں کی جارہی ہے۔ اس منصوبے کی لاگت 8 ارب 20 کروڑ ڈالر ہے۔ راجہ جاوید اخلاص نے بتایا کہ 2013ء میں نان آپریشنل کوچز کی تعداد 715 تھی جو 2018ء میں کم ہو کر 572 رہ گئی ہے۔

آپریشنل کوچز 2013ء میں 972 اور اس وقت 1248 ہیں۔سید وسیم حسین کے سوال کے جواب میں راجہ جاوید اخلاص نے بتایا کہ جون 2013ء سے اب تک سندھ ریلوے کی 849 ایکڑ اراضی لیز پر دی گئی۔ یہ اراضی زراعت‘ پریمیم‘ دکانیں‘ پارکنگ کے لئے دی گئی ۔ثریا جتوئی کے سوال کے جواب میں راجہ جاوید اخلاص نے بتایا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اداروں کو رولز و پروسیجر کے مطابق چلائے ہمارے دور میں نیپرا‘ ریلوے اور دیگر محکموں میں بہتری آئی ہے۔

اجلاس کے دور ان قومی اسمبلی میں فضائی آلودگی اور ہسپتالوں کے فضلہ کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے پارلیمانی سیکرٹری رومینہ خورشید عالم جواب دے رہی تھیں۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کے شیخ فیاض الدین نے کہا کہ سیاسی آلودگی بھی بڑھ گئی اور سیاسی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لئے حکومت کیا اقدامات اٹھا رہی ہے۔ اس پر پارلیمانی سیکرٹری رومینہ خورشید عالم نے انتہائی خوبصورت پیرائے میں برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی آلودگی اور سیاسی فضلے کو ٹھکانے لگانا پوری پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔

ہم سب مسلمان ہیں اور ہم سب نے اپنے رب کو جواب دینا ہے۔ ہمیں اپنے وطن سے محبت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ سپیکر بھی اس سوال سے محظوظ ہوئے اور کہا کہ آپ نے اس حوالے سے کیا ٹرم آف ریفرنس بنائے ہیں۔وزیر مملکت عابد شیر علی نے بتایا کہ اس سال 23 سے 24 ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کریں گے ،ْپورے ملک میں ریونیو کی بنیاد پر لوڈشیڈنگ کر رہے ہیں۔ جن تقسیم کار کمپنیوں میں بقایا جات نہیں‘ بل ادا کئے جاتے ہیں وہاں پر لوڈشیڈنگ نہیں ہے۔

بعض کمپنیاں لاسز کو کور کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس لئے ان کو جو ان کی ڈیمانڈ پر بجلی دی جاتی ہے وہ بھی نہیں خرچ کرتے۔ جہاں بجلی چوری ہے‘ جہاں کنڈا سسٹم ہے وہاں پر لوڈشیڈنگ ہے اور ایسا مستقبل میں بھی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بجلی چوروں کا بوجھ پنجاب کی کمپنیاں اٹھاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بجلی کی جتنی پیداوار ہمارے دور میں ہوئی اتنی 70 سال میں نہیں ہوئی۔ ہم نے سسٹم میں بہتری لائی ہے۔ ہم پاکستان کی سوچ رکھتے ہیں۔ ہمارے لئے ہر صوبہ معتبر ہے۔ جن علاقوں میں بجلی چوری نہیں‘ بلز باقاعدہ دیئے جارہے ہیں ان کو بجلی دیں گے۔ کسی تقسیم کار کمپنی سے امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔ ہم نے کے ای سی کو نکیل ڈالی ہے۔ کے پی کے کے ساڑھے 400 فیڈرز پر زیرو لوڈشیڈنگ ہے جو بل نہیں دیتے ان کو کسی صورت بجلی نہیں دیں گے۔

ہم نے پورے پاکستان کے لئے یکساں پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ وزارت کی ویب سائٹ پر جاکر پورے فیڈر کی تفصیل مل جائے گی۔ بل ماف کرنے کا ہمارے پاس اختیار نہیں ہے‘ قسطیں کر سکتے ہیں۔اجلاس کے دور ان قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رکن ساجد نواز نے بجلی کے بلز کا بنا ہوا ہار گلے میں ڈال کر اور سر پر انہی بلز کی بنی ہوئی ٹوپی پہن کر انوکھا احتجاج کیا۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں توانائی کی ترسیل کے حوالے سے بل کی منظوری کے دوران وہ گیلری سے جاکر یہ ہار گلے میں ڈال کر ٹوپی پہن کر ایوان میں آئے اس دوران وزیر مملکت برائے توانائی عابد شیر علی اور پی ٹی آئی کے اراکین کے درمیان گرمی سردی بھی ہوئی۔ اجلاس کے دور ان قومی اسمبلی میں دو اراکین کی جانب سے ایک ساتھی رکن کی ویڈیو بنانے پر ڈپٹی سپیکر نے ان کی سرزنش کردی۔

قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے رکن ساجد نواز خان بجلی کے بلز کا بنا ہوا ہار اور ٹوپی پہن کرایوان میں آئے تو تحریک انصاف کے رکن انجینئر حامد الحق اور جماعت اسلامی کی رکن عائشہ سید نے ان کی ویڈیو بنائی جس پر ڈپٹی سپیکر نے ان دونوں اراکین کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں اس کی اجازت نہیں ہے‘ آئندہ اس سے گریز کیا جائے۔