ملک میں امن و استحکام قائم کئے بغیر ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی،

2025ء تک پاکستان کا شمار دنیا کی پہلی 25 معیشتوں میں ہوگا بہت سی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں، ملک بھر میں ترقی کے منصوبے جاری ہیں،چار سال قبل ہم، آج دہشت گرد محاصرے میں ہیں، ہر ضلع میں یونیورسٹی کیمپس قائم کیا جائے گا، لیپ ٹاپ فار آل سکیم شروع کی جا رہی ہے 0ء میں چین کی فی کس آمدنی 200 ڈالر، پاکستان کی300 ڈالر تھی جبکہ آج چین کی فی کس آمدنی 8 ہزار ڈالر اور ہماری 1600 ڈالر ہے، 1960ء میں جنوبی کوریا کی برآمدات 16 ملین ڈالر اور پاکستان 2000 ملین ڈالر تھیں جس ملک نے اپنا سفر ایسے عالم میں شروع کیا کا کاغذوں میں لگانے کیلئے کامن پنیں بھی نہیں تھیں آج وہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے تو کچھ تو اچھا بھی ہے وفاقی وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال کا پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے زیراہتمام سیمینار سے خطاب

جمعرات 15 مارچ 2018 14:32

ملک میں امن و استحکام قائم کئے بغیر ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل نہیں ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 مارچ2018ء) وفاقی وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ملک میں امن و استحکام قائم کئے بغیر ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی، 2025ء تک پاکستان کا شمار دنیا کی پہلی 25 معیشتوں میں ہوگا، ہمیں ٹیکنالوجی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا، پاکستان میں ہر چیز خراب نہیں ہم نے بہت سی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں، ملک بھر میں ترقی کے منصوبے جاری ہیں، دہشت گرد آج محاصرے میں ہیں اور ہم نے ان پر چڑھائی کی ہوئی ہے جبکہ چار سال قبل دہشت گردوں نے ہم پر چڑھائی کی ہوئی تھی اور ہم محاصرے میں تھے، ہر ضلع میں یونیورسٹی کیمپس قائم کیا جائے گا، لیپ ٹاپ فار آل کی سکیم شروع کی جا رہی ہے، ہر طالب علم کو لیپ ٹاپ دیا جائے گا۔

جمعرات کو یہاں پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے زیراہتمام ’’قومیت اور پاکستانیت‘‘ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ دور تیزی سے ہوتی تبدیلیوں اور بدلتی دنیا کا دور ہے، میری نسل کے لوگوں نے تختی اور سلیٹ سے ٹیب اور نوٹ بک تک کا سفر دیکھا ہے، آج سکولوں میں تختی اور سلیٹ کی جگہ پی سیز اور فور جی ٹیکنالوجیز استعمال ہو رہی ہیں، چاک کی جگہ فور جی اور سلیٹ کی جگہ کمپیوٹر سکرین آ گئی ہے، یہ سفر محض دو سے تین عشروں میں طے ہوا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ گذشتہ صدیوں میں بڑا چھوٹے کو کھا جاتا تھا لیکن اب ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں فاسٹ سلو کو کھا جائے گا، ہر قوم اپنی ترقی کی رفتار تیز تر کرنے کی کوشش میں ہے، ایک وقت تھا جب عسکری طاقت پر قوموں کی ترقی کا انحصار تھا، اسلحہ، میزائل اور ٹینک دفاع کی ضمانت تھے لیکن آج کسی قوم کی سلامتی اور ترقی کا دارومدار علم و معیشت پر ہے، جس کی معیشت مضبوط نہیں وہ دنیا بھر کا اسلحہ بھی جمع کر لے تو اپنا دفاع نہیں کر سکتا، روس کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کی فوج دنیا کی سب سے بڑی فوج تھی اور اسلحہ کے انبار تھے لیکن کمزور معیشت کے سامنے سب کچھ ڈھیر ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ 1979ء میں چین کے مفکر نے اپنے لوگوں کو نئی راہ دکھائی تھی اور اس نے معیشت کو مضبوط کرنے کی بات کی تھی، ان کا فلسفہ تھا کہ اگر ہم معاشی لحاظ سے مضبوط ہوں گے تو دنیا میلی نگاہ سے ہماری طرف نہیں دیکھ سکے گی، چین نے کبھی سیاسی استحکام پر سمجھوتہ نہیں کیا، اس لئے معاشی طاقت بنا، 1980ء میں چین کی فی کس آمدنی 200 ڈالر، پاکستان کی300 ڈالر تھی جبکہ آج چین کی فی کس آمدنی 8 ہزار ڈالر اور ہماری 1600 ڈالر ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1960ء میں جنوبی کوریا کی برآمدات 16 ملین ڈالر اور پاکستان 2000 ملین ڈالر تھیں، ہم جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ملائیشیا کے برابر ایکسپورٹ کرتے تھے، آج ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے سامنے 70 سال کے قومی سفر کے بعد سب سے بڑا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیسے ہم اقتصادی ترقی کے میدان میں ٹاپ گیئر میں گامزن ہوں، اگر ہم نے خود کو معاشی طاقت کے روپ میں نہ ڈھالا تو محض پاکستانیت کے لیکچرز دینے سے نوجوانوں کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے سیمینار میں شریک طلباء کو یاد دلایا کہ علامہ اقبال نے قائداعظم محمد علی جناح کو برطانیہ سے واپس لانے کیلئے جو دلائل دیئے ان میں سب سے زیادہ زور مسلمانوں کی اقتصادی و معاشی بدحالی کی طرف دیا گیا اور انہیں باور کرایا کہ ہندوستان میں مسلمان معاشی لحاظ سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ تقسیم ہند سے قبل تعلیمی اور کاروباری شعبوں پر ہندو مسلط تھے اور مسلمان خال خال ہی نظر آتے تھے، بھارت میں آج بھی مسلمانوں کو استحصال کا سامنا ہے اور آبادی کے لحاظ سے ان کیلئے آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ہیں، پاکستان بننے کے پیچھے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اور امتیازی رویہ کارفرما تھا۔

انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے پاس سرکاری دفاتر کیلئے جگہ تھی نہ بجٹ اور نہ کارخانے لیکن قوم قائد کے ساتھ تھی جس کو منزل کے حصول کا یقین تھا اور جن کی قیادت میں سات سالوں میں مسلمانوں نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت حاصل کر لی تھی۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر سات سالوں میں ہم بے سروسامانی کی عالم میں ہم اپنی جدوجہد سے ایک ملک بنا سکتے ہیں تو کیا پانچ دس سال محنت کرکے ہم اس ملک کو چوٹیوں اور بلندیوں تک نہیں لے جا سکتی انہوں نے کہا کہ اگر ہم عزم سے قومی تعمیر میں جت جائیں تو 2025ء تک پاکستان کا شمار دنیا کی پہلی 25 معیشتوں میں ہو سکتا ہے، اس مقصد کیلئے قوم کا متحد ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ امن و استحکام قائم کئے بغیر دنیا کی بہترین تدبیریں بھی کسی قوم کو کامیابی نہیں دلا سکتیں، چین کی ترقی کے پیچھے امن استحکام کارفرما تھا اور انہوں نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ کسی کو بھی امن و استحکام سے نہیں کھیلنے دیں گے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کے بغیر ترقی نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور جرمنی میں بھی چلے جائیں تو وہاں بھی مسائل ہیں، ہم ہمیشہ آدھا گلاس خالی دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر چیز خراب ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے جس ملک نے اپنا سفر ایسے عالم میں شروع کیا کا کاغذوں میں لگانے کیلئے کامن پنیں بھی نہیں تھیں آج وہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے تو کچھ تو اچھا بھی ہے جس کی بدولت ایسا ممکن ہوا۔

انہوں نے کہا کہ 1947ء میں پاکستان میں ایک بھی کارخانہ نہیں تھا لیکن بھارت کے پاس سٹیل مل تھی جو صنعتی ترقی کی علامت ہے لیکن آج ہمارے جے ایف17- تھنڈر فضاؤں کو چیر رہے ہیں تو کچھ تو ہے ہمارے پاس، 1947ء میں پورے ملک میں چند ٹیلی فون کنکشن تھے، آج ہم فائبر آپٹک کی ڈیجیٹل کیبل، تھری جی اور فور جی لگا چکے اور فائیو جی کیلئے تیار ہیں تو ہم نے کچھ تو ٹھیک کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مسائل معلوم ہیں اور بہت سے شعبوں پر توجہ کی ضرورت ہے لیکن کئی کامیابیاں بھی ہم نے حاصل کی ہیں، 2013ء میں پاکستان کو عالمی سطح پر دنیا کا خطرناک ملک کہا جا رہا تھا آج دنیا پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہی ہے، 2013ء میں بیس بیس اور بائیس بائیس گھنٹے بجلی نہیں آتی تھی اور روشنی کیلئے موم بتیاں اور لالٹینیں جلائی جاتی تھیں اور دنیا مذاق اڑا رہی تھی کہ پاکستان پتھر کے دور میں جا چکا ہے، آج اس ملک میں بیس بیس بائیس بائیس اور چوبیس چوبیس گھنٹے بجلی آتی ہے تو کچھ تو ٹھیک ہے پاکستان میں، 2013ء میں دہشت گردی کا راج تھا جس دن سنگل ڈیجٹ میں لوگ جاں بحق ہوتے تھے تو کہا جاتا تھا کہ آج کا دن ٹھیک گذرا اور آج ہفتوں اور مہینوں دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ 2013ء میں دہشت گردوں نے چڑھائی کی ہوئی تھی اور ہم محاصرے میں تھے، آج دہشت گرد محاصرے میں ہیں اور ہم نے چڑھائی کی ہوئی ہے، کراچی میں ہر پیسے والا دبئی یا کسی اور ملک جانے کی باتیں کر رہا تھا آج کراچی میں پی ایس ایل آ رہا ہے، بلوچستان میں حالات یہ تھے کہ قومی پرچم لہرانا ایک جرم بن گیا تھا اور کوئٹہ میں بھی سکولوں میں قومی پرچم کی تقاریب سے سکول ہچکچاتے تھے، آج بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں بھی قومی پرچم لہرائے جا رہے ہیں اور بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں ترقی و خوشحالی کے بڑے بڑے منصوبے شروع ہیں، سوئی میں کچھی کینال کے منصوبہ سے 72 ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہوگی، ملک بھر میں سی پیک کے تحت ترقی کے منصوبے زیرعمل ہیں، تھر میں کوئلہ کا ذخیرہ ایران اور سعودی عرب کے تیل سے زیادہ بڑا توانائی کا ذخیرہ ہے، رواں سال کے آخر تک مقامی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا پلانٹ کام شروع کر دے گا جس سے 5000 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اور یہ عرصہ دراز تک بجلی پیدا کرتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو امید اور عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہے، کامیابی کا دارومدار مضبوط معیشت پر ہے اور مضبوط معیشت کا دارومدار امن و استحکام پر، اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ٹیکنالوجی اور ایجادات پر توجہ دینا ہوگی اور اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہر ضلع میں یونیورسٹی قائم کی جا رہی ہے، پشین، نوشکی، خضدار، گوادر، قلعہ عبداللہ، فاٹا، گلگلت بلتستان، سندھ اور پنجاب سمیت ملک کے ہر علاقے میں یونیورسٹیاں اور کیمپس بنائے جا رہے ہیں، آئندہ دو سالوں میں ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کیمپس ہوگا، نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دیئے آج وہ اس کے ذریعے ایپس بنا رہے ہیں، رواں سال سے لیپ ٹاپ فار آل کی سکیم شروع کی جائے گی، ہر طالب علم کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے گا کیونکہ لیپ ٹاپ کے بغیر طالب علم ایسے ہی نامکمل ہے جیسے کوئی فوجی بندوق کے بغیر۔

انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ محنت کریں تو 2047ء میں پاکستان جب 100 سال کا ہوگا اور آپ میری جگہ کھڑے ہوں گے تو پاکستان دنیا کی ٹاپ ٹین معیشتوں میں ہوگا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ادارہ کے سربراہ میجر جنرل (ر) سعداللہ خٹک نے کہا کہ ان کا ادارہ دہشت گردی کے حوالے سے ریسرچ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے، نظریاتی گمراہی دہشت گردی کا بڑا سبب ہے، نظریاتی و فکری محاذ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہمیت کا حامل ہے، پاکستان کی 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، یہ ہماری طاقت ہے اور اگر ان کا خیال نہ رکھا گیا تو یہ کمزوری بھی بن سکتی ہے، نوجوانوں کی نظریاتی و فکری رہنمائی کی ضرورت ہے۔