سپریم کورٹ ،طیبہ تشد د کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی

بدھ 14 مارچ 2018 22:34

سپریم کورٹ ،طیبہ تشد د کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 مارچ2018ء) سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج کی اہلیہ کی جانب سے اپنی کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پرتشد د کے حوالے سے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کرتے ہوئے کہاہے کہ طیبہ تشد د کیس کاٹرائل چندروزمیں مکمل ہوجائے گا لیکن اصل بات اس طرح کے مسائل کی روک تھام ہے، خواہش ہے ملک میں ایک بستہ ایک نصاب اور ایک یونیفارم ہو ،تعلیم کاحصول ایسے بچوں کا حق ہے جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔

. بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے طیبہ تشدد کیس کی سماعت کی۔. اس موقع پر سویٹ ہومز کے سربراہ زمرد خان نے پیش ہوکرعدالت کو بتایا کہ طیبہ 75دن سویٹ ہوم میں رہ رہی ہے ۔ ہمارے ملک میں چا ئلڈ لیبر بڑھ رہی ہے ، جس کے ذمہ دار بچوں کے والدین سمیت پورا معاشرہ ہے، اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ لاوارث اور یتیم بچے ہیں اورضرورت اس امرکی ہے کہ اس مسئلہ کو ٹھوس بنیادوں پر حل کیا جائے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہا کہ مری میں بچے کھلونے بیچنے اور بھیک مانگنے پر مجبور ہیں بچوں کے ساتھ بہت براسلوک ہورہاہے۔ زمرد خان کا کہنا تھاکہ لاوارث اور یتیم بچوں کے لیے قانون بننا چا ہیے تاکہ چائلڈ لیبر کاخاتمہ اوربچوں کوتعلیم سے آراستہ کرنے میں مدد مل سکے ، چیف جسٹس نے کہاکہ اس حوالے سے ہم حکومت کوتجاویز دے سکتے ہیں اگر آپ کے پاس اس بارے میں کوئی مسودہ ہے تو عدالت کو فراہم کر دیں ہم اس معاملے پر اٹارنی جنرل اور متعلقہ سیکرٹری سے بھی رائے لیں گے ، کیونکہ پیرسوہاوہ اور پیرودھائی میں چائلڈ لیبر بھی عروج پر ہے۔

عدالت کو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے ایک ا ستفسارپربتایاکہ حالت یہ ہوگئی ہے کہ کچہری میں ٹیکسیوں پر بچوں کوبھیک مانگنے کے لیے لایاجاتاہے ، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کو معلومات ہیں توکارروائی کریں اسلام آباد انتظامیہ ایک ہفتے میں اس مافیا کوختم کرے۔ سماعت کے دوران سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ نے کہاکہ کم عمری میں بچوں کی ملازمت کرنے سے مستقبل تباہ ہوجاتاہے اس لئے بچوں سے متعلق قوانین پر عمل ہوناچاہیے،چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں پر تشدد اور گھروں میں ملازمت کو روکنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے لیکن یہ کام عدالت نہیں کر سکتی اس معاملے پر قانون سازی وفاقی یا صوبائی سطح پر ہو سکتی ہے تاہم ہم پارلیمان کو قانون سازی پر مجبور نہیں کر سکتے ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں ایک بستہ ایک نصاب اور ایک یونیفارم ہو ہمیں تجاویز دی جائیں کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے، بعد ازاں مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔

متعلقہ عنوان :