کراچی،جماعت اسلامی کراچی کا یونیورسٹی ترمیمی بل کو مسترد کرنے کا اعلان

چانسلر کے اختیارات گورنر سے وزیر اعلیٰ کو منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف بھر پور آواز بلند کی جائے گی ،حافظ نعیم الرحمن

بدھ 14 مارچ 2018 22:23

کراچی،جماعت اسلامی کراچی کا یونیورسٹی ترمیمی بل کو مسترد کرنے کا اعلان
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 مارچ2018ء) جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے یونیورسٹی ترمیمی بل کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ چانسلر کے اختیارات گورنر سے وزیر اعلیٰ کو منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف بھر پور آواز بلند کی جائے گی ،فیصلے کے خلاف’’ سیو یونیورسٹیز کنونشن‘‘منعقد کیا جائے گا ،’’سیویونیورسٹیز،سیو ایجوکیشن ‘‘مہم چلائی جائے گی ،تمام تعلیم دوست قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیاجائے گا،آئین کی بنیادی روح کے منافی اس فیصلے کے خلاف عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائے گا،سندھ کے عوام کے لیے تعلیمی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کریں گے،سندھ کی جامعات کو ان کی گرانٹ فوری طور پر جاری کی جائیں اور آمرانہ طرز عمل پر قائم سنڈیکیٹ کی نئی تشکیل کو ختم کرکے طلباء، کالج پرنسپلز اور کالج اساتذہ کو 1972کے ایکٹ کے مطابق سنڈیکیٹ میں نمائندگی دی جائے، فیصلہ فی الفور واپس لیا جائے ، گورنر سندھ اس کی منظوری نہ دیں ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ نورحق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ پریس کانفرنس سے نائب امیر کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی نے بھی خطاب کیا ۔ اس موقع پر نائب امیر کراچی برجیس احمد ، ڈپٹی سکریٹری کراچی سیف الدین ایڈوکیٹ ، سکریٹری اطلاعات زاہد عسکری اور دیگر بھی موجود تھے ۔ حافظ نعیم الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ سندھ حکومت نے اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر یونیورسٹی ترمیمی بل منظور کیا ہے ۔

جس پر عوامی حلقوں ،اساتذہ اور طلباء کی جانب سے شدید احتجاج کیا جا رہا ہے ۔ہم اس احتجاج میں سندھ کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ ہیں ۔ اس بل کو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا ۔جماعت اسلامی بھی اس بل کو مسترد کرتی ہے ۔جامعات کی خود مختاری پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کی آڑ میں من پسند ترا میم کرکے سندھ بھر کی جامعات کی خود مختار حیثیت کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جامعات کی خود مختاری کا خاتمہ دراصل تعلیم و تحقیق اور اظہار آزادی رائے پر قدغن ہے۔ جامعات اعلیٰ تعلیم کے وہ ادارے ہیں جو کہ علمی آزادی کی بناء پر وجود میں آتے ہیں اور ان سے یہ حق کسی صورت نہیں چھینا جاسکتا۔جامعات کے مقتدر اداروں مثلاً سنڈیکیٹ سے طلباء اور کالج اساتذہ وپرنسپلز کی نمائندگی کا خاتمہ کرکے بیوروکریٹس کو اس میں شامل کرکے سنڈیکیٹ اور دیگر اداروں کو حکومت کے تابع کرنے اور اپنے من پسند فیصلوں کو مسلط کرنے کی سازش ہے۔

گریڈ 17اور اس سے زیادہ کی تقرریوں کا اختیار براہ راست حکومت سندھ کو دیا جانا اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ آئندہ سندھ کی جامعات کا حال سندھ کے سرکاری اسکولوں جیسا ہونے جارہا ہے۔ پوری دنیا میں جامعات اپنی داخلہ پالیسی کا خود تعین کرتی ہیں لیکن اس بل کے ذریعے داخلہ پالیسی کا اختیار اکیڈمک کونسل سے لے کر حکومت سندھ کو دینے کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔

وائس چانسلر کی تقرری کے ضمن میں ترمیم کرکے اب پروفیسر کے ساتھ ایڈ منسٹریٹر کا اضافہ کرنا اس جانب اشارہ ہے کہ اب جامعہ کا سربراہ کوئی غیر اکیڈمک فرد بھی ہوسکتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وائس چانسلر کو ملازمت یا عہدے سے سبکدوش کرنے لیے محض وزیر اعلیٰ سندھ کو ہی اتھارٹی بنایا گیا ہے جو کہ محض ایک اظہار وجوہ کے نوٹس کے بعد کسی بھی وائس چانسلر کو فارغ کرسکتے ہیں۔

جو کہ سراسر غیر جمہوری طرز عمل ہوگاوائس چانسلر کے جواب کے بعد کوئی آزاد کمیشن قائم کرنے کے بجائے محض فرد واحد ہی اس کو عہدے سے ہٹانے کا مجاز بنانا آمرانہ طرز عمل کے مترادف ہے۔گورنر کی جگہ وزیر اعلیٰ کے پاس چانسلر کے اختیارات ،جامعات کے وائس چانسلرز ،پرو وائس چانسلرز کے تقرر کے اختیارات منتقل کر نا تعلیم دشمن اقدام ہے ۔سندھ میں پہلے ہی تعلیم کا معیار مسلسل گررہا ہے ۔

اس اقدام سے تعلیم اور اس کا معیار مزید گر جائے گا ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے اکثریت کی بنیاد پر یہ فیصلہ سندھ میں میرٹ اور صلاحیت کا قتل کرنے کے مترادف ہے ،حکومت کا یہ فیصلہ تعلیم میں بھی وڈیرہ شاہی نظام لانے کی کوشش ہے مگر ہم تعلیمی اداروں میں وڈیرہ شاہی نہیں چلنے دیں گے ۔یہ اقدام جامعات کی آزادی و خودمختاری سلب کر نے مترادف ہے ۔

قانون کی منظوری سے قبل حکومت نے وائس چانسلرز تک سے مشاورت نہیں کی ۔ اس قانون کی منظوری سے جامعاتی سنڈیکیٹ کے 25اراکین میں سے صرف 6افراد ہی منتخب شدہ ہوں گے ۔اس طرح اب بیوروکریسی ،افسر شاہی اورغیر تعلیم یافتہ وڈیرے تمام جامعات میں میرٹ کے خلاف فیصلے ڈ کٹیٹ کرائیں گے ۔ یہ عمل سراسرغیر جمہوری طرزِ عمل ہے جو جمہوریت کی روح کے بھی منافی ہے ۔

اس غیر جمہوری اور تعلیم دشمن قانون کے خلاف جماعت اسلامی ہر سطح پر احتجاج کرے گی ۔ حکومت ایسے اقدامات سے یونیورسٹی میں مداخلت کا دروازہ کھولنا چاہتی ہے اور اصل مقصد یونیورسٹیز کے وسائل اور تعلیمی نظام داخلوں ، اساتذہ اور عملہ کی تقرری پر قبضہ کرنا ہے اور اس کے ذریعے جامعات کو بھی زرداری کرپشن کی لپیٹ میں لینا ہے جس کا لازمی نتیجہ تعلیم کی تباہی کی صورت میں نکلنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس فیصلے کے خلاف بھرپور آواز بلند کریں گے ، سندھ میں تعلیم کی تباہ شدہ صورتحال پر سندھ کے عوام کے لیے تعلیمی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کریںگے ۔’’ سیو یونیورسٹیز کنونشن‘‘منعقد کریں گے اور ’’سیویونیورسٹیز،سیو ایجوکیشن ‘‘مہم چلائیں گے ۔ تمام تعلیم دوست قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیاجائے گا ۔ آئین کی بنیادی روح کے منافی اس فیصلے کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا ۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ جامعات کی خود مختاری کے خلاف کی گئی ترامیم کو فی الفور واپس لیا جائے۔ سندھ کی جامعات کو ان کی گرانٹ فوری طور پر جاری کی جائیں اور آمرانہ طرز عمل پر قائم سنڈیکیٹ کی نئی تشکیل کو ختم کرکے طلباء ، کالج پرنسپلز اور کالج اساتذہ کو 1972کے ایکٹ کے مطابق سنڈیکیٹ میں نمائندگی دی جائے۔#