بے بنیاد الزامات لگا کر تعیناتی روکنے پر قومی زرعی تحقیقاتی کونسل کے سابق چیف سائنٹیفک آفیسر نے سکندر حیات بوسن کیخلاف مقدمہ دائر کردیا

ڈاکٹر شیر محمد نے دس کروڑ پچاس لاکھ روپے ہرجانے کا مقدمہ ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد محترمہ عابدہ کی عدالت میں دائر کیا ، وفاقی وزیر 15مارچ کو طلب

بدھ 14 مارچ 2018 20:43

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 مارچ2018ء) قومی زرعی تحقیقاتی کونسل کے سابق چیف سائینٹیفک آفیسر ڈاکٹر شیر محمد نے بے بنیاد الزامات لگا کر تعیناتی سے روکے جانے پر وفاقی وزیر خوراک سکندر حیات بوسن کے خلاف 10 کروڑ 50 لاکھ روپے ہر جانے کا مقدمہ دائر کر دیا ہے ۔ مقدمہ ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد محترمہ عابدہ کی عدالت میں دائر کیا گیا ہے ۔

عدالت نے وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن کو 15 مارچ کو اصالتاً یا وکالتاً طلب کر لیا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد محترمہ عابدہ کی عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں مدعی کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میں ڈاکٹر شیر محمد ایک معروف سائنسدان ہوں،میں نے سوائل مائیکرو بائیولوجی اینڈ پلانٹ نیوٹریشن کے شعبہ میں جرمنی سے 2005ء میں ڈاکٹریٹ کی ہے اور اس کے بعد تقریباً اکیس سال پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل(PARC) میں اعلیٰ سائنسی/انتظامی عہدوں پر تعینات رہا ہوں اس کے علاوہ مجھے یونیورسٹی آف ایرڈایگریکلچرل راولپنڈی خوشاب کیمپس کا بانی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے مجھے خوشاب کیمپس میں پہلا پروجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا اور میں نے اس پروجیکٹ کو ریکارڈ مدت میں مکمل کرکے کلاسیں شروع کروائیں۔

(جاری ہے)

میں نے بطور چیف ایگزیکٹو آفیسر نیشنل پروڈکٹوٹی آرگنائزیشن(NPO) میں ایک سال کام کیا ہے جو پاکستان کی ایشیاء میں نمائندگی کرتا ہے۔میں نے اس دوران اس ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا اور اس کا مالی خسارہ ختم کرکے اس کو ایک منافع بخش ادارہ بنایا۔دوران تعیناتیPARC میں نے تین ارب روپے کا ایک تحقیقاتی پروجیکٹ چلا کر زرعی تحقیق میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس کے علاوہ مجھے پاکستان میں پہلا نامیاتی کاشتکاری کا ادارہ بنانے کا بھی اعزاز حاصل ہے جس کی بدولت آج پاکستان کے کاشتکار منافع بخش کاشتکاری کر رہے ہیں۔وزارت تحفظ خوراک وتحقیق(نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ) نی17.04.2016 کو پانچ کل وقتی ممبرز کی آسامیاں مشتہر کیں جس میں دو آسامیوں پر میں نے درخواست گزاری جن میں سے ایک(i)ممبر کو آرڈینیشن اینڈ مانیٹرنگ اور دوسری(ii) ممبر نیچرل ریسورسز کی تھیں۔

بعد از جانچ پڑتال اہل امیدواروں کے ایک اعلیٰ درجے کے قائم شدہ اور وزیراعظم پاکستان سے منظور شدہ سلیکشن بورڈ نے انٹرویو کئے جس کی سربراہی سیکرٹری وزارت تحفظ خوراک وتحقیق عابد جاوید نے کی۔سلیکشن بورڈ نے مجھے ممبر کوآرڈینیشن اینڈ مانیٹرنگ کی آسامی کیلئے بطور نمبر ایک اور ممبر نیچرل ریسورسز کی آسامی کیلئے نمبردو پر رکھا اور تعیناتی کی سفارشات کیں۔

جب وزیراعظم سے منظوری کیلئے وزارت میں سیکرٹری نے سمری تیار کی تو اس وقت سکندر حیات خان بوسن وزیر تحفظ خوراک وتحقیق نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھ پر سنگین قسم کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا کر میری تعیناتی کو روکنے کی کوشش کی اور اس صمن میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور وزیراعظم پاکستان کو درخواست کی کہ ڈاکٹر شیر محمد کا نام اس سمری سے نکال دیا جائے کیونکہ وہ اپنے من پسند ڈاکٹر غلام محمد علی کو بطور ممبر تعینات کروانا چاہتا تھا جس کو سلیکشن بورڈ پہلے ہی نااہل کرچکا تھا اور اسی ڈاکٹر غلام محمد علی کو وزیر تحفظ خوراک وتحقیق کی سفارش پر ممبر کوآرڈینیشن اینڈ مانیٹرنگ کا عارضی چارج دیا گیا جس سے موصوف وزیر کی اقربا پروری صاف عیاں ہے۔

مدعی نے استدعا کی ہے کہ وفاقی وزیر میری کردار کشی کرنے اور میری تعیناتی کو روکے جانے پر 10 کروڑ 50 لاکھ روپے ہر جانہ ادا کرے ۔۔