پختونوں کی پاکستان کے استحکام میں بڑی قربانیاں ہیں،

قانون نافذ کرنے والے ادارے تمام پاکستانیوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں‘ کسی سے لسانی امتیاز نہیں برتا جاتا‘ کسی مخصوص قومیت کے خلاف رویہ اختیار کرنے کے سخت مخالف ہیں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا قومی اسمبلی میں توجہ مبذول نوٹس کا جواب

منگل 13 مارچ 2018 14:07

پختونوں کی پاکستان کے استحکام میں بڑی قربانیاں ہیں،
اسلام آباد۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 مارچ2018ء) وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے تمام پاکستانیوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں‘ کسی سے لسانی امتیاز نہیں برتا جاتا‘ کسی مخصوص قومیت کے خلاف رویہ اختیار کرنے کے سخت مخالف ہیں‘ پختونوں کی پاکستان کے استحکام میں بڑی قربانیاں ہیں۔ منگل کو قومی اسمبلی میں شہریار آفریدی کے پختونوں کو عام دیوانی مقدمات اور تنازعات میں کٹر مجرم گرداننے کے حوالے سے توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تمام پاکستانیوں کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے کسی سے لسانی امتیاز نہیں برتا جاتا۔

ایسی کوئی پالیسی نہیں کہ کسی زبان رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی قومیت کے خلاف رویہ اختیار کیا جائے۔

(جاری ہے)

پختونوں کی پاکستان کے استحکام میں بڑی قربانیاں ہیں ہم اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کے کسی حصے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوئی ایسی پالیسی نہیں کہ زبان یا قومیت کی بنیاد پر کسی سے کارروائی کی جائے۔

پاکستان میں افغان مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے اور وہ پاکستان کی شہریت حاصل کرنا چاہتی ہے ان کو فلٹر کرنے کی وجہ سے نادرا میں پالیسی بنائی گئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم سب کو بحیثیت سیاسی کارکن اختلاف رکھتے ہوئے حوصلہ پیدا کرنا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کوئی ایسی پالیسی نہیں اختیار کی جاتی کہ کسی قومیت‘ لسانیت کی بنیاد پر کسی شخص کو نشانہ بنایا جائے۔

اس سے ایسا رویہ رکھا جائے۔ قائداعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ گروہی یا صوبائی شناخت کو پاکستان میں ضم کریں اور یہی قومی شناخت ہو۔ اس طرح پنجاب یونیورسٹی میں بھی ایسی بھی ہدایات دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہندوستان سے علیحدگی اس لئے اختیار کی کہ ہم مذہبی طور پر محفوظ نہیں تھے۔ اگر یہاں کوئی اقلیت‘ قومیت اپنے آپ کو غیر محفوظ کہے تو یہ اس رویے کے منافی ہے۔ سب پاکستانی محترم ہیں‘ کوئی دوسرے درجہ کا شہری نہیں ہے۔