سی بی آئی کو سوپور میں 1993 ء کے قتل عام کی رپورٹ دو ہفتوں کے اندر پیش کرنے کی ہدایت

منگل 13 مارچ 2018 11:10

سرینگر ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 مارچ2018ء) مقبوضہ کشمیر میں تحفظ انسانی حقوق کمیشن نے سوپور میں25 برس قبل پیش آئے قتل عام سانحہ پر مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کو دو ہفتوں کے اندر کیس سے متعلق تازہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ریاستی انسانی حقوق کمیشن میں پیر کو اس کیس کی سماعت کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) بلال نازکی کے پاس ہوئی۔

اس دوران چیف پراسکیوٹنگ آفیسر ممتاز سلیم اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل ایم ایم خان کے علاوہ درخواست گزار اور بشری حقوق کے کارکن محمد احسن اونتو بھی موجود تھے۔ کمیشن نے مرکزی تفتیشی بیوروسی بی آئی کو ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کی وساطت سی2ہفتوں کے اندر اس معاملے کی تازہ ترین رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔یکم اپریل 2012کو انسانی حقوق کارکن اور انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو نے ایک عرضی زیر نمبر SHRC/111/Sopore/2012 بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میںدائر کی،جس میں سوپور قتل عام کی تحقیقات کی اپیل کی گئی۔

(جاری ہے)

انسانی حقوق کے مقامی کمیشن نے اس عرضی کی بنیاد پر ریاستی پولیس کے سربراہ اور ضلع ترقیاتی کمشنر(ضلع مجسٹریٹ) کو سوپور قتل عام سے متعلق مکمل تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔29اپریل2012کو ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کمیشن کے سامنے رپورٹ پیش کی،جس میں پولیس نے کہا’’6 جنوری1993سے متعلق معاملے کیلئے تحقیقات کی گئی۔مرکزی تفتیشی بیورو(سی بی آئی) نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے پاس جو رپورٹ پیش کی،اس میں33شہریوں کی ہلاکت کی شناخت کی تصدیق کی گئی۔

انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کی ہدایت پر مرکزی تفتیشی بیورو(سی بی ا?ئی) نی21 اکتوبر2013کو کیس کی موجودہ نوعیت سے متعلق رپورٹ کمیشن میں پیش کیا۔ مرکزی تفتیشی بیوروسی بی آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کیلئے جسٹس امرجیت کی سربراہی میں یک نفری کمیشن کو بھی تشکیل دیا۔اس سلسلے میں کوششیں کی کی گئی کہ اس تحقیقات کی کاپی حاصل ہو،تاہم حکومت ہند نئی دہلی کے ڈائریکٹر،محکمہ امور جموں کشمیر،ائے کے سری واستا نے بتایا کہ سوپور واقعے کی تحقیقات کیلئے جسٹس چودھری کی سربراہی میں کمیشن آف انکوائری کی معیاد30ستمبر1994کو پوری ہوئی اور اس کے بعد اس میں توسیع نہیں ی گئی۔

اس لئے کمیشن آف انکوائری کی طرف سے تحقیقاتی عمل شروع ہی نہیں ہوا۔اس لئے اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ،اس سلسلے میں کوئی رپورٹ پیش کی گئی۔سی بی ا?ئی نے اس کیس کو بند کرتے ہوئے کہا کہ20 سال پہلے ہی گزر چکے ہیں،اور اس دوران تحقیقات کے تمام پہلوئوں پر کام کیا گیا، تاہم مندرجہ بالا وجوہات کی بنیاد پرکوئی بھی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ قانون کی طرف سے قائم کیں گئے کورٹ نے پہلے ہی اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث اہلکاروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا،اور سزائیں بھی دی گئی۔جولائی2013 ء میں مرکزی تفتیشی بیورو نی2 علیحدہ تکمیلی رپورٹیں چیف جوڈیشل مجسٹریٹ سرینگر کی عدالت میں پیش کیں،تاہم ان رپورٹوں کو’’سی بی آئی‘‘ نے منظر عام پر نہیں لایا۔

متعلقہ عنوان :