10سال سے مسلسل حکومت کرنیوالوں نے اب تک کیا کیا ،کارکردگی کا اشتہار چلاتے ہیں جو نہیں کیا اسکا اشتہار بھی چلائیں‘ چیف جسٹس

بیشک اورنج ٹرین ،موٹر وے بنائیں عوام کی صحت پربھی توجہ دی جائے،آلودہ پانی کو صاف کرنے کے منصوبوں کے پی سی ون طلب ہسپتالوں میں کیوں نا جائوں، کسی نے تو لوگوں کا حال دیکھنا ہے، لوگ کس طرح کراہ رہے ہیں، جن کا کام ہے وہ نہیں کر یں گے کوئی تو کرے گا حکمرانوں کو اندازہ نہیں پاکستان قرضوں میں ڈوب چکا ہے، قرضوں میں ڈوبی قوم کا پیسہ حکمران ذاتی تشہیر پر خرچ کررہے ہیں‘ جسٹس عمر عطا ء بندیال صاف پانی فراہم کرنے کیلئے مختص رقم سے بلٹ پروف گاڑیاں لی جا رہی ہیں‘ چیف جسٹس ،خریداری کا عمل روک دیا گیا ہے‘ چیف سیکرٹری پنجاب

ہفتہ 10 مارچ 2018 18:55

10سال سے مسلسل حکومت کرنیوالوں نے اب تک کیا کیا ،کارکردگی کا اشتہار ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 مارچ2018ء) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاںثاقب نثار نے دریائے راوی میں آلودہ پانی پھینکنے اور صاف پانی کی فراہمی سے متعلق از خود نوٹس کیسز میں آلودہ پانی کو صاف کرنے کے لئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کے پی سی ون پیش کرنے کا حکم دیدیا ، عدالت نے کمپنیوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ صاف پانی کمپنی میں افسروں پر کروڑوں روپے کے اخراجات کس حیثیت سے کئے گئے،شہریوں کو پینے کیلئے گندہ اور زہریلا پانی مل رہا ہے، 10سال سے مسلسل حکومت کرنیوالوں نے اب تک کیا کیا ،کارکردگی کا اشتہار چلاتے ہیں جو نہیں کیا اس کا اشتہار بھی چلائیں، یہ لوگوں کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے، بیشک اورنج ٹرین بنائیں موٹر وے بنائیں عوام کی صحت کی طرف بھی توجہ دی جائے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں از خود نوٹس کیسز کی سماعت کی ۔ چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید ، سیکرٹری ماحولیات سمیت دیگر اعلیٰ افسران بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے ۔اس موقع پر عدالتی معاون عائشہ حامد نے اپنی رپورٹ پیش کی ۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیف سیکرٹری بتائیں اورنج لائن ٹرین منصوبے پر کتنی لاگت آئے گی ۔چیف سیکرٹری نے بتایا کہ منصوبے پر 180ملین روپے لاگت آئے گی۔ چیف سیکرٹری کے بتانے پر اعتزاز احسن نے لقمہ دیا کہ 180نہیں بلکہ 235 ملین روپے خرچ آئے گا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ حالت ہے کہ ڈیٹ شیٹ پر بھی وزیراعلی کی تصویریں چھپتی ہیں، کارکردگی دکھانی ہے تو کام کرکے دکھائیں، تصویریں چھپوا کر نہیں، شہباز شریف کو تصویریں چھپوانے کا زیادہ شوق ہے تو ہمیں پیش ہو کر وضاحت کریں۔

یاد رکھیں ہم نیب کو پنجاب حکومت کے اشتہارات کی تحقیقات کا حکم دے سکتے ہیں۔اورنج ٹرین پر اربوں روپے لگا دیئے، ادھر دھیان نہیں کہ کیا ہورہا ہے، اورنج ٹرین بنائیں، موٹروے بنائیں، عوام کی صحت کی طرف بھی توجہ دی جائے، لگتا ہے عوامی صحت حکومت کی ترجیح ہی نہیں۔وزیراعلی، چیف سیکرٹری اور واسا کے لوگ بتائیں کہ اس طرف توجہ کیوں نہیں دی جارہی۔

چیف سیکرٹری نے بتایا کہ حکومت نے صاف پانی کے منصوبوں کے لئے معقول رقم رکھی ہے ۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ میں ہسپتالوں میں کیوں نا جائوں، کسی نے تو ان لوگوں کا حال دیکھنا ہے، لوگ کس طرح کراہ رہے ہیں، کتنی بار وزیراعلی یا افسر ہسپتالوں میں گئے ہیں، جن کا یہ کام ہے وہ نہیں کریں گے کوئی تو کرے گا، گڈ گورننس کا یہ حال ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ حکمرانوں کو اندازہ نہیں کہ پاکستان قرضوں میں ڈوب چکا ہے، قرضوں میں ڈوبی قوم کا پیسہ حکمران ذاتی تشہیر پر خرچ کررہے ہیں، قرضوں کی صورتحال دیکھ کر عدالت پریشان ہے، اب بھی وقت ہے حکومتیں اپنی ترجیحات درست کرلیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ محمود بوٹی ٹریٹمنٹ پلانٹ پر کتنی لاگت آئے گی۔

جس پر عدالتی معاون عائشہ حامد نے بتایا کہ محمود بوٹی پر 9ارب ، شادباغ پر 10 ارب روپے لاگت آئے گی۔چیف جسٹس نے ٹریٹمنٹ پلانٹ کے حوالے سے وضاحت کرنے پر عدالتی معاون کو کہا کہ یہ آپ کا مسئلہ نہیں، جن کا کام ہے وہ وضاحت کریں۔سپریم کورٹ نے آلودہ پانی کو صاف کرنے کے منصوبوں کے پی سی ون 23مارچ تک جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ 31 مارچ کو دوبارہ سماعت کریں گے،تمام ڈیٹا ریکارڈ پر ہونا چاہیے۔

آلودہ پانی سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران فیکٹری مالک نے بیان دیا کہ سی سی پی او لاہور نے بدی نالہ پر بند باندھ رکھا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سی سی پی او لاہور پیش ہوں اور بتائیں اثرورسوخ کہاں استعمال کرتے ہیں۔آپ سب کو اس نظام کے خلاف جرات کرنا ہو گی،جو غلط کام کر رہا ہے اس کا کھل کر نام بتائیں،آنکھیں اور لب بند رکھنے سے نظام درست نہیں ہو گا۔

صاف پانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صاف پانی فراہم کرنے کیلئے مختص رقم سے بلٹ پروف گاڑیاں لی جا رہی ہیں۔ جس پر چیف سیکرٹری پنجاب نے کہا کہ سکیورٹی خدشات کی وجہ سے گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پیسے کو افسران پر خرچ کیا جا رہا ہے،لینڈ کروزر گاڑیاں خریدنے کی کیا ضرورت ہی ۔ جس پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ عدالتی حکم پر گاڑیوں کی خریداری کا عمل روک دیا گیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کروڑوں روپے کے اخراجات کا معاملہ دیکھا جائے،چیف سیکرٹری صاف پانی کمپنی کی تمام تفصیلات عدالت میں پیش کریں۔