مجھ پرجعلی کیس بنایا گیا‘سب کچھ بڑے منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔6 ماہ میں معلوم نہیں چل سکا کہ مجھ پرالزام کیا ہے‘کرپشن کا کوئی الزام یا ثبوت سامنے نہیں آسکا-نوازشریف

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 8 مارچ 2018 15:30

مجھ پرجعلی کیس بنایا گیا‘سب کچھ بڑے منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔6 ماہ میں ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 08 مارچ۔2018ء) سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہاہے کہ مجھ پرجعلی کیس بنایا گیا اور یہ سب کچھ بڑے منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔6 ماہ میں معلوم نہیں چل سکا کہ مجھ پرالزام کیا ہے، 6 ماہ میں مجھ پرکرپشن کا کوئی الزام نہیں لگ سکا، مجھ پرجعلی کیس بنایا گیا اوریہ سب کچھ بڑے منصوبے کے تحت ہورہا ہے، رابرٹ ریڈلے کو بڑے ارمانوں سے لے کر آئے تھے اوروہ ہمارا ہی کیس بنا کر چلا گیا۔

احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رضا ربانی اپنا کام اچھے طریقے سے کرتے ہیں وہ موزوں آدمی ہیں، چیئرمین اورڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ہارس ٹریڈنگ ہوسکتی ہے، رضا ربانی کا نام بطور چیئرمین سینیٹ دینے کا مقصد ہارس ٹریڈنگ سے بچنا تھا، نوازشریف نے کہا کہ چئیرمین سینیٹ کے لیے مشاورت بھی کی، ان ہی کی حمایت کریں گے، اپوزیشن اورہماری خواہش ہے کہ رضاربانی کی چئیرمین سینیٹ بنیں، بلوچستان میں دو تین ماہ پہلے ہی ہارس ٹریڈنگ شروع ہو گئی تھی جبکہ ہارس ٹریڈنگ ایک بری روایت ہے جس کا سدباب ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

نوازشریف نے کہا کہ سینیٹ میں ہم اکثریتی جماعت ہیں اورہمارا حق ہے کہ امیدواردیں، فضل الرحمان، محمود اچکزئی اور حاصل بزنجو کو ملا کراچھی خاصی تعداد بن جاتی ہے۔ دوران گفتگو صحافی کی جانب سے کہا گیا کہ مولانا فضل الرحمان کی آصف زرداری سے اچھی دوستی ہے جس پرنواز شریف نے کہا کہ مولانا صاحب ہمارے بھی اچھے دوست ہیں۔بعد ازاں پنجاب ہاﺅس اسلام آباد میں وکلا سے ملاقات کے دوران نواز شریف نے کہا کہ میں 3 بار ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہوں، اگر میں نے کرپشن کی ہوتی تو اب تک ثابت ہو جاتی لیکن مجھ پر ایک پیسے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوئی، ملک جب بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو سازشیں شروع ہو جاتی ہیں، مجھے سی پیک اور موٹر وے بنانے کی سزا مل رہی ہے، ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھتا ہوں اور ووٹ کا تقدس بحال کرانے کے مشن پر نکلا ہوں۔

قبل ازیںاحتساب عدالت نے نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی مکمل رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے واجد ضیاءکو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام دستاویزات کو ایک ایک کرکے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔

احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، سماعت کے دوران نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پیش ہوئے۔سماعت کے دوران پاناما پیپرز کیس میں بنائی گئی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاءنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا، جس پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے جو مواد اکھٹا کیا گیا، اسے ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔

مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی جلد 2 میں گواہوں اور اس مقدمے کے ملزمان کے قلمبند کیے گئے بیانات کو کارروائی کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ ہر جلد میں 20 سے 25 صفحات پر مشتمل تجزیہ اور سمری لکھی گئی ہے۔امجد پرویز نے کہا کہ اس نام نہاد تجزیے کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنانا اس طرح ہے جیسے یہ چالان جمع کرارہے ہوں اور واجد ضیاءاس معاملے میں گواہ ہیں کوئی تفتیشی افسر نہیں جبکہ قانون کے مطابق تحقیقاتی رپورٹ کو ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔

اس موقع پر نیب استغاثہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ صرف رپورٹ نہیں بلکہ ثبوت ہیں اور اسے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے میں حرج نہیں جبکہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے سربراہ کو بااختیار بنایا تھا اور عدالت میں واجد ضیاء بطور تفتیشی افسر نہیں بلکہ گواہ پیش ہوئے ہیں۔سماعت کے دوران واجد ضیاءکی جانب سے عدالت میں بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر مجھے جے آئی ٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا اور شریف خاندان کی لندن میں جائیداد کب اور کیسے بنی ہم نے اس کی تحقیقات کی تھی۔

واجد ضیاءنے بتایا کہ لندن جائیداد کس کی ملکیت ہے اور اس کا پیسہ کہاں سے آیا تھا، ان سب کی تحقیقات کی ذمہ داری سپریم کورٹ نے ہمیں دی تھی اور اس حوالے سے اعلیٰ عدالت کے حکم پر تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی۔عدالت کو اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کو چند سوالات تلاش کرنے اور گلف اسٹیل، قطری خط، ہل میٹل کی تحقیقات کا حکم دیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان سوالات میں ملزمان کی رقوم کی جدہ، قطر اور برطانیہ منتقلی سے متعلق بھی سوال تھا جبکہ نواز شریف کے بچوں کے پاس کمپنیوں کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا اس حوالے سے بھی سوال موجود تھا۔انہوں نے بتایا کہ عدالت کی جانب سے دیئے گئے اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا تھا کہ نواز شریف اور ان کے زیر کفالت افراد کے آمدن سے زائد اثاثے کیسے بنے؟اس موقع پر نواز شریف کے وکیل کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراض پر مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے بھی پیش کیے گئے جبکہ عدالت سے اس رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کی استدعا کی گئی۔

جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے جے آئی ٹی رپورٹ کی مکمل رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے واجد ضیاءکو اکھٹی کی گئی دستاویزات ایک ایک کرکے جمع کرانے کی ہدایت کی۔