سپریم کورٹ میں پنجاب کے سکولوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت

بچوں کو پڑھنے کا بھی بہت شوق ہے، اس صورتحال میں بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے تو یہ نا انصافی ہے، بچوں کو تعلیم فراہم کرنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس

جمعرات 1 مارچ 2018 20:36

سپریم کورٹ میں پنجاب کے سکولوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 01 مارچ2018ء) پنجاب کے سکولوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ بچوں کو پڑھنے کا بھی بہت شوق ہے، اس صورتحال میں اگربچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے تو یہ نا انصافی ہے، بچوں کو تعلیم فراہم کرنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے۔جمعرات کے روز کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، پنجاب میں سکولوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے تین رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے استفسار کیاکہ بتایا جائے صوبے میں کتنے بچے سکول جارہے ہیں کتنے نہیں جارہے کیاہمارے پاس یہ اعدادوشمار ہیں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس سیکرٹری تعلیم پنجاب کابیان حلفی موجود ہے لیکن ہمارے پاس جوتصویرآرہی ہے وہ بیان حلفی سے مختلف ہے۔

(جاری ہے)

ہرگھرمیں کوئی بچی یابچہ ملازم ہیں جبکہ سیکرٹری ایچ ای سی کی معلومات سیکرٹری تعلیم سے مختلف ہیںن ان کا کہنا تھا کہ ایک سکول ایک بستہ ایک نصاب ہوناچاہیے۔دیکھنایہ ہے 5سال سے لے کر16سال تک کل کتنے بچے ہیں یہ بھی دیکھناہے سرکاری سکولوں میں کتنے بچے جاتے ہیں اورکتنے نجی سکولوں میںجاتے ہیں اوریہ بھی دیکھناہے کتنے بچے سکول نہیں جارہے ، انہوں نے کہاکہ ملکوں کی ترقی میں تعلیم کاکردار ہوتاہین کیاریاست اپنی ذمہ داری ادا کررہی ہے۔

اگر ریاست نہیں کررہی توآئین کے محافظ کے طور پر ہمیں یہ کام کرناہے۔اس دوران لمز کے نمائندے نے بتایا کہ ہمیں عدالت کی معاونت کے لیے نئی مردم شماری کے اعداد و شمار چاہیے ہونگے،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا ملک میںایک بستہ ایک یونیفارم ایک نصاب کا تصور کامیاب ہوسکتا ہی کیا کسی نے غریب کے بچے کے لیے سوچا ہی نمائندہ لمز کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم کا سبجیکٹ صوبوں کو منتقل ہو گیا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ خدا کا کرم ہے مخیر لوگ اس ملک کے لیے بہت کچھ کرنے کو تیار ہیں اور بچوں کو پڑھنے کا بھی بہت شوق ہے، اس صورتحال میں اگربچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے تو یہ نا انصافی ہے، بچوں کو تعلیم فراہم کرنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے، سب سے پہلے یہ اعداد و شمار حاصل کرنے ہیں کہ بچوں کی کل تعداد کتنی ہے، اس دوران جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ گھوسٹ سکولوں کا بہت چرچا تھاکیا اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار ہیں جس پر لمز کے نمائندے نے بتایا کہ پنجاب کے اعداد و شمار پہلے سے بہتر ہوئے ہیں۔

آٹھ مارچ کو جب آئندہ سماعت ہوگی تو اعداد و شمار کے ہمراہ آئیں گے،چیف جسٹس نے کہاکہ میرے والد میرے خاندان کے پہلے گریجویٹ تھے جبکہ منیاری اورشامی ٹکی والے میرے خاندان میں شامل ہیں تعلیم کے ساتھ ہم کہاں تک پہنچے ہیں۔کیاتعلیم حاصل کرناہمارے بچوں کاحق نہیں ،مجھین اپنے منیاری اور شامی ٹکی والے عزیزوں پر بھی فخر ہے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جو بریفنگ دی جارہی ہے وہ روٹین کی بریفنگ ہے ان بریفنگز میں سب اچھاکی رپورٹ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آئندہ کیس کی سماعت لاہور میں کریں گے۔ تمام افسران اور مایرین تیاری کرکے آئیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 8مارچ تک ملتوی کردی۔