جماعت اسلامی پنجاب کی صوبائی مجلس شوریٰ کااجلاس

اجلاس میں ملک کی سیاسی ومعاشی صورتحال پر متفقہ طورپرقراردادیں منظور

جمعرات 1 مارچ 2018 16:20

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 مارچ2018ء) جماعت اسلامی پنجاب کی صوبائی مجلس شوریٰ کااجلاس امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد کی زیر صدارت منصورہ لاہور میں منعقد ہوا۔ اجلاس میںملک کی سیاسی اورمعاشی صورتحال کے حوالے سے قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔جس میں کہا گیاہے کہ جماعت اسلامی پنجاب کی صوبائی مجلس شوریٰ کایہ اجلاس ملک کی مخدوش معاشی صورت حال ،بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے ،ملک پرمزید چالیس ارب ڈالر کے قرضوں کے نئے بوجھ ،برآمدات میں مسلسل کمی اور درآمدات میں بے پناہ اضافہ ، روپے کی قیمت میں مجرمانہ انداز کی کمی ، کسانوں، کا شتکاروں کے مسلسل استحصال اور گنے کی ملوں کی طرف حکومتی ملی بھگت سے کاشتکاروں کو گنے کے مقررہ نرخ دینے سے انکار اور مہنگائی ، بے روز گاری میں مسلسل اضافے پر گہری تشویش کااظہار کرتاہے۔

(جاری ہے)

سٹیٹ بنک آف پاکستان کی بدلی ہوئی پالیسی کے تحت روپے کی قدر میں 8فیصد سے زیادہ کمی واقع ہو گئی جس کے نتیجے میں ہماری درآمدات مہنگی ہو گئیں،واجب الا دا قرضوں میں اضافہ ہو گیا گو کہ برآمدات میں کچھ بڑھوتری واقع ہوئی۔ان دونوں خساروں یعنی بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے بے محابہ قرضے لیے ۔ دسمبر 2017تک یہ مجموعی قرض 24کھرب روپے کے قریب تھا۔

حال ہی میں پاکستان نے 2.5بلین ڈالر کے سکوک اور یورو بانڈز بین الا قوامی منڈی میں فروخت کیے ہیں اور آئندہ چند ہفتوں میں پھر بین الا قوامی مارکیٹ میں اپنے بانڈز فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔جما عت اسلامی کی صوبائی مجلس شوری کی رائے میں قرضو ں میں یہ بے تحاشہ اضافہ باعث تشویش ہے اور آنے والے دنوں میں معیشت کے لیے شدید خطرے کا باعث بن سکتا ہے ۔

دکھ کی بات یہ ہے کی اسی ملک کی معاشی نمو 1960کی دہائی میں دنیا کی بلند ترین سطح پر تھی ۔ملک کی اوسط فی کس جی ڈی پی 1965میں 116ڈالر تھی جب کہ اس وقت چین اور کوریا کی اوسط فی کس جی ڈی پی بالترتیب 98ڈالر اور109ڈالر تھی ۔اُس وقت پاکستان کی برآمدات جنوبی کوریا کے بر ابر تھیں جب کہ اس وقت جنوبی کوریا کی برآمدات 560بلین ڈالر ہیں اور پاکستان کی برآمدات صرف20بلین ڈالر ہیں۔

یہ دن ہم نے ہر سو کرپشن ، بری طرز حکمرانی اورغیر حقیقت پسندانہ معاشی اہداف کی وجہ سے دیکھے ہیں ۔ حال ہی میں زرعی شعبے میں دو اہم واقعات اس بری طرز حکمرانی اور کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔حکومت نے خود ہی مشاورت کے نتیجے میں 2017-18کے کرشنگ سیزن کے لیے گنے کی قیمت180روپے فی 40کلو گرام کا نو ٹیفکیشن جاری کیا لیکن حکومتی آشیر باد سے شوگر ملیں 110روپے سے 140روپے فی من گنا خریدتی رہیں اور کسان تنظیموں کے نمائندوں سے اعلی ترین سطح کے حکومتی زمہ داروں کے وعدوں کے باوجود مقرر کردہ قیمت پر عمل در آمد نہ کر ا یا جا سکا ۔

اس طرح سے کسانو ں کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا ۔اب لاہور ہائیکورٹ نے جماعت اسلامی پنجاب کی رٹ پر کسانوں کے حق میں تاریخی فیصلہ دیا ہے۔عدالت عالیہ نے شوگر مل مالکان کو پابند کیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر کسانوں سی180روپے فی من کے حساب سے گنے کی خریداری کویقینی بنایاجائے اور شوگرملوں کوکھولاجائے۔ درآمدی کپاس پربھی ہر قسم کے ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ ہے جس کے نتیجے میں ملک میں پیدا ہونے والی کپاس کی قیمت کم ہو جائے گی اور کسانوں کو نقصان ہو گا۔

جس کی وجہ سے اگلے سال کپاس کی پیداوار مزید کم ہو جائے گی۔صوبائی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس مطالبہ کرتاہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے اور احتساب کے عمل کو صاف اور شفاف بنایا جائے۔بیرون ملک سے قرض لینے کے لیے موٹروے اور ا ئیر پورٹ جیسے حساس قومی اثاثوں کو گروی نہ رکھاجائے ۔نقصان میں چلنے والی کارپوریشنز جیسے کہ پی آئی اے یا بند پڑے ہوئے پاکستان سٹیل مل جیسے اثاثوں کو دیانت داری کے ساتھ بحال کیا جائے اور ان کو اونے پونے داموں فروخت نہ کیا جائے ۔

جن ممالک کے ساتھ بھی ہم نے فری ٹریڈ کے معاہدے کیے ہوئے ہیں ان میں پاکستان کو تجارتی خسارہ پہنچانے والے تمام معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے اور ہم ہر حال میں کسی کی خاطر بھی اپنے قو می مفاد پر سمجھوتہ نہ کریں۔غیر ضروری درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جائے اور برآمدات کو بڑھانے کو ایک اہم قومی ایجنڈا کے طور پر لیا جائے ۔زراعت میں جدت پیدا کی جائے تاکہ ملکی ضروریات پوری کر کے وافر مقدار میں بین الا قوامی معیار کے مطابق اضا فی پیداوار کو برآمد کیا جا سکے ۔

متعلقہ عنوان :