ملک میں آمریت نہیں پھر بھی اس دور جیسے فیصلے ہورہے ہیں ،برملا کہتا ہوں یہ فیصلے نہیں مانتا‘ نواز شریف

جس نے مارشل لاء لگایا ،ججز کو نظر بند کیاانہیں ہاتھ لگاتے ہوئے پر جلتے ہیں ،سیاستدان آسان ٹارگٹ ہیں میرے خلاف کچھ نہیں ڈھونڈے رہے سوائے انتقام کے اوریہ سارا انتقام ہے ،اصولی موقف اپنانے پر سزا سنائی گئی سوشل میڈیا پر سب آرہا ہے ،کس کس کو روکو گے ،کس کس کو بند کرو گے ، تاریخ کو قبر مین دفن نہیںکیا جا سکتا ،لاکھ چاہیں تاریخ کو دفن نہیں کر سکتے نواز شریف کو جو سزا دی گئی یہ تو اس کا 100واں حصہ بھی نہیں جتنا پی سی او کا حلف لینے کا جرم ہے ،وہ جج ہمار ے خلاف اس طرح کے فیصلے دیں اور ہم سر تسلیم خم کر لیں نواز شریف ایسا نہیں کر سکتا ، اب ہمیں خود کو بدلنا ہوگا بلکہ پورا بدلنا ہوگا ،اگر سیاست کرنی ہے تو پھر اپنی عزت کو بر قرار رکھنا ہوگا ،ایسی سیاست نہیں کرنی جس سے ہماری عزت بھی جاتی رہے اور ہمارے پلے کچھ نہ رہے،اگر اس نظام کے چلانے کے لئے پاکستا ن بنانا ہے تو پھر مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ میں یہ نظام قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں ، یہاں سکھا شاہی نہیں چلے گی ،مجھے اس نظام کو ختم کرنے کے لئے جتنی جدوجہد کرنا پڑی میں کروں گا ،ہمارے دامن میں کارکردگی بھی ہے ، ووٹ کی حرمت او ر تقدس کا بیانیہ انتہائی طاقتور ہے ، مملکتیں عوام کے ووٹ کا تقدس کرنے سے ترقی کرتی ہیں ،اقتدار پر شب خون مارنے سے صرف بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے ،قائد مسلم لیگ(ن)

منگل 27 فروری 2018 21:27

ملک میں آمریت نہیں پھر بھی اس دور جیسے فیصلے ہورہے ہیں ،برملا کہتا ہوں ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 فروری2018ء) سابق وزیر اعظم محمد نوا زشریف نے کہا ہے کہ ملک میں آمریت نہیں پھر بھی اس دور جیسے فیصلے ہورہے ہیں ،برملا کہتا ہوں یہ فیصلے نہیں مانتا،جس نے دو دفعہ مارشل لاء لگایا عدالتوں کو تالے لگا کر ججز کو نظر بند کیاان کے خلاف تو کسی کو ایکشن لینے کی ہمت نہیں بلکہ ان کو ہاتھ لگاتے ہوئے پر جلتے ہیں ،سیاستدان آسان ٹارگٹ ہیں ان کو پکڑ لو اٹھا لو جلا وطن کر دو ما ر دو قتل کر دو جیلوں میں ڈال دو ہتھکڑیاں لگا دو ،،میرے خلاف کچھ نہیں ڈھونڈے رہے سوائے انتقام کے اوریہ سارا انتقام ہے ،صرف اس بات پر سزا سنائی گئی کہ نواز شریف نے فیصلے کوقبول نہیں کیا اور اصل بات یہ ہے کہ نواز شریف نے اصولی موقف کیوںاپنایا ،نوجوان نسل کو سب پتہ ہے وہ سب جانتے ہیں ،جو چیزیں اخبار میں نہیںآ سکتیں جو ٹی وی پر نہیں چل سکتیں ان پر سوشل میڈیا پر بات ہوتی ہے کس کس کو روکو گے ،کس کس کو بند کرو گے ، تاریخ کو قبر مین دفن نہیںکیا جا سکتا ہم لاکھ چاہیں تاریخ کو دفن نہیں کر سکتے ،کوئی میرے ضمیر سے ،دل سے اور میرے دماغ سے پوچھے تو میں بر ملا کہوں گا میں ان فیصلوں کو نہیں مانتا ،نواز شریف کو جو سزا دی گئی ہے یہ تو اس کا 100واں حصہ بھی نہیں جتنا کہ پی سی او کا حلف لینے کا جرم ہے ،وہ جج ہمار ے خلاف اس طرح کے فیصلے دیں اور ہم سر تسلیم خم کر لیں نواز شریف ایسا نہیں کر سکتا، اب ہمیں خود کو بدلنا ہوگا بلکہ پورا بدلنا ہوگا اگر ہم نے سیاست کرنی ہے تو پھر اپنی عزت کو بر قرار رکھنا ہوگا ایسی سیاست نہیں کرنی جس سے ہماری اپنی عزت بھی جاتی رہے اور ہمارے پلے کچھ نہ رہے،اگر اس نظام کے چلانے کے لئے پاکستا ن بنانا ہے تو پھر مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ میں یہ نظام قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں ، یہاں سکھا شاہی نہیں چلے گی ،مجھے اس نظام کو ختم کرنے کے لئے جتنی جدوجہد کرنا پڑی میں کروں گا ، ووٹ کی حرمت او ر تقدس کا بیانیہ انتہائی طاقتور ہے اور پارٹی کے لوگوں کو اسے قوم کے پاس لے کر جانا ہے ،عوام کے ووٹ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے منتخب وزرائے اعظم کو ذلیل کرکے ہٹا دیا جاتا ہے، ہمیں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا، یہ صورتحال جاری رہی تو ملک کیسے چلے گا مملکتیں عوام کے ووٹ کا تقدس کرنے سے ترقی کرتی ہیں جبکہ اقتدار پر شب خون مارنے سے صرف بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ماڈل ٹائون میں منعقدہ مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر چیئرمین راجہ ظفر الحق ،وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف ، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ، ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی ،وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال ، وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق ، وزیر اعظم آزاد جموں کشمیر راجہ فاروق حیدر ، گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ ، گورنر سندھ محمد زبیر ،سردار مہتاب خان ،امیر مقام ، مریم نواز ، پرویز رشید ، حمزہ شہباز ، اقبال ظفر جھگڑا ،نواب ثناء اللہ زہری ، سردار یعقوب ناصر ، طارق فضل چوہدری ، عبدالقادر بلوچ ، دانیال عزیز ،سائرہ افضل تارڑ ، طارق فاطمی ، برجیس طاہر ، کامران مائیکل ، جعفر اقبال ، آصف کرمانی ، مصدق ملک ،راجہ اشفاق سرور ، ذکیہ شاہنواز ، سعود مجید ، پیر صابر شاہ ، رانا ثناء اللہ رانا شمیم ، محسن رانجھا ، سینیٹر سلیم ضیاء ، زبیر گل ، شیخ آفتاب سمیت دیگر ممبران موجود تھے ۔

نواز شریف نے کہا کہ ملک میں جو ہو رہا ہے اس سے ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے اور یہ کوئی سنہری حروف سے نہیں لکھی جائے گی ، ہم ستر سال سے جو کرتے رہے ہیں یہ اس کا ایک او رباب ہے اور اسی کے مطابق سارا کچھ چل رہا ہے ۔آج بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت ہیں لیکن ہمیں سینیٹ انتخابات سے باہر کر دیا گیا ،کیا کبھی عدلیہ کے فیصلوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہے ، آمروں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے جو وہ ملک کے ساتھ سلوک کرتے رہے ہیں لیکن عدلیہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو سینیٹ انتخابات سے باہر کر دے ،یہ نہ ماننے والی اور غیر یقینی بات ہے ۔

ہمیں چور ،ڈاکو کہہ کر پکارا گیا ڈرگ ڈیلر تک کہہ دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی یہاں پر بیٹھا ہے تو وہ بتائے ،میں جب اپنے دائیں بائیں دیکھتا ہوں تو ایسا کوئی نظر نہیں آتا ،یہ چھوٹی بات ہے کہ آپ ڈرگ ڈیلر کا لفظ استعمال کریں اور چور اور ڈاکو کہیں ۔میں حیران ہوں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حیرانگی بالکل جائز ہے اس طرح کیسے ادارے چلیں گے ،ایگزیکٹو کا کردار بھی لے لیا جائے ۔

70 سال سے اس ملک میں منتخب وزیراعظم کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے، عوام کے ووٹ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے منتخب وزرائے اعظم کو ذلیل کرکے ہٹا دیا جاتا ہے،ملک میں پہلے آمریت کے دور میں ایسے سلوک ہوتے تھے اور اب آمریت نہیں ہے لیکن پھر بھی اس دور جیسے فیصلے ہورہے ہیں،عوام کچھ اور چاہتے ہیں لیکن کچھ قوتیں اس ملک کو کس طرف لے جانا چاہتی ہیں ، سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتوں سے جو کچھ ہوتا آیا وہ قوم کے سامنے ہے۔

ہمیں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا، یہ صورتحال جاری رہی تو ملک کیسے چلے گا مملکتیں عوام کے ووٹ کا تقدس کرنے سے ترقی کرتی ہیں جب کہ اقتدار پر شب خون مارنے سے بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے خلاف نیب نے از خود کوئی کیس بنایا اور نہ رجسٹر کیا بلکہ اس کو ہدایت کی گئی کہ کیسز بنائیں ،جو کیس چل رہا ہے اس کیس کا کیا حشر ہو رہا ہے ،جو کہانیاں پڑھی جاتی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں ،حالیہ دنوں میں ویڈیو لنک کے ذریعے جو بات ہوئی وہ اخباروں میںآ چکا ہے اور اس کا دنیا میں مذاق بنا ۔

مجھے پتہ نہیں کس کرپشن کی پاداش میں میرے خلاف کیسز بنائے گئے ہیں،میں نے کونسی کرپشن کی ہے وہ مجھے تو بتائیں تو سہی ،دو روپے ،دس روپے لاکھ،دو لاکھ ، کروڑ یا سو کروڑ کوئی سکینڈل ہے جو سامنے آیا ہے ،میں پوچھنا چاہتا ہوں بتایا جائے کہ نواز شریف نے فلاں جگہ سے کرپشن کی ،ٹھیکے سے پیسہ بنایا یا نواز شریف نے سرکاری رقم میں خرد برد کی ہے ،نواز شریف نے کسی کا پیسہ کھایا ہے یا کرپشن کا مرتکب ہوا ہے، چھ مہیوں میںاس طرح کی کوئی آواز ہمارے کانوں میں نہیں پڑی ،پھر آپ میرے خلاف کیا ڈھونڈے رہے ،کچھ نہیں ڈھونڈے رہے سوائے انتقام کے اوریہ سارا انتقام ہے ۔

صرف اس بات پر ججز نے سزا سنائی ہے کہ نواز شریف نے فیصلے کوقبول نہیں کیا اور یہ اصل بات ہے کہ نواز شریف نے اصولی موقف کیوںاپنایا ۔ ہمارے ملک کی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے کیوں اس کا ذکر نہ کریں ،ہماری نسلیں کیسے آگے جائیں گی یہ وطیرہ رہے گا تو ہم کیسے آگے جائیں گے ،نوجوان نسل کے لوگوں کو پتہ ہے وہ سب جانتے ہیں سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے جو چیزیں اخبار میں نہیںآ سکتیں جو ٹی وی پر نہیں چل سکتیں ان پر سوشل میڈیا پر بات ہوتی ہے کس کس کو روکو گے ،کس کس کو بند کرو گے ۔

تاریخ کو قبر مین دفن نہیںکیا جا سکتا ہم لاکھ چاہیں تاریخ کو دفن نہیں کر سکتے اور یہ آج تاریخ لکھی جارہی ہے ۔ کیا ایسے حکومت چلے گی ایسے کون حکومت کرے گا۔ عدالتی فیصلے کی وجہ سے بائیس مہینے اورنج لائن منصوبے پر کام بند رہا اور یہ بائیس مہینے تاخیر سے چل رہی ہے ورنہ یہ بائیس مہینے پہلے شروع ہو چکی ہوتی اور عوام کو بہترین سواری مل چکی ہوتی اور ان کی خدمت ہو رہی ہوتی ، یہ کوئی ہم نے اپنی ذات کے لئے نہیں بنائی ،آج لاہور میں بن رہی ہے کل اسے کراچی میں بننا ہے ،کوئٹہ اورپشاور میں بننا ہے ،کل کو پاکستان کے ہر شہر میں جانا ہے اور یہ ایک اچھی چیز ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔

شہباز شریف کو شاباش دینی چاہیے جن کی سربراہی میں بائیس مہینے حکم امتناعی کے باوجود یہ مکمل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدارت کے حوالے سے پارلیمنٹ نے قانون بنایا جس کی سینیٹ اور قومی اسمبلی نے منظوری دی ۔ کیا جواز ہے کیسے اورکیونکر آپ اس قانون کو ختم کر دیں جسے اسمبلی اور پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے سینیٹ نے پاس کیا ہے ۔ وہاں سینکڑوں لوگوں نے اسے پاس کیا ہے اور یہاں صرف پانچ لوگ ختم کر رہے ہیں اور نواز شریف کو ہٹا رہے ہیں ،فیصلے کی وجہ سمجھ میں آنے والی ہے یہ کونسی منطق ہے ۔

آپ اس کو اسمبلی کو واپس بھیج دیتے کہ ہمیں اس پر تحفظات ہیں کہ اس کو دوبارہ دیکھیں حالانکہ یہ بھی نہیں ہونا چاہیے لیکن آپ نے اسے اسمبلی کو واپس نہیں بھیجا بلکہ اس قانون کو ختم کر دیا ، کیسے مان لیں اس فیصلے کو ۔ اگر میںخاموش ہوں ، عمل ہو رہا ہے لیکن کوئی میرے ضمیر سے ،دل سے اور میرے دماغ سے پوچھے تو میں بر ملا کہوں گا میں ان فیصلوں کو نہیں مانتا ۔

نواز شریف کو جو سزا دی گئی ہے یہ تو اس کا 100واں حصہ بھی نہیں جتنا کہ پی سی او کا حلف لینے کا جرم ہے ۔یہ اس ملک کے اندر سب سے بڑا جرم ہے ، وہ جج ہمار ے خلاف اس طرح کے فیصلے دیں اور ہم سر تسلیم خم کر لیں نواز شریف ایسا نہیں کر سکتا۔ اب ہمیں خود کو بدلنا ہوگا بلکہ پورا بدلنا ہوگا اگر ہم نے سیاست کرنی ہے تو پھر اپنی عزت کو بر قرار رکھنا ہوگا ایسی سیاست نہیں کرنی جس سے ہماری اپنی عزت بھی جاتی رہے اور ہمارے پلے کچھ نہ رہے ۔

ہم قوم کو کیا سبق دے رہے ہیں ،ہم قوم کی کیا تعمیر کریں گے ،اگر ہم خود ہی بے اصولے ہیں تو پھر قوم کو کیا اصول سکھائیں گے ۔ حق پر ڈٹ جانا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور اللہ تعالیٰ خود قران پاک میں کہتا ہے گواہی دو تو پھر سچی گواہی دو اور ظلم کے آگے کھڑے ہو جائو اور جھوٹی گواہی مت دو۔ظلم کے آگے کھڑے نہیں ہوں گے سچی گواہی نہیں دو گے حق کو حق او رباطل کو باطل نہیں کہو گے تو عوام کو خوش کرتے کرتے اللہ کو ناراض کر لوگے اور جب اللہ ناراض ہوگا تو عوام ہم سے کیسے خوش رہے گی ،اگر اللہ تعالیٰ خوش ہوگا تو عوام بھی ساتھ دے گی، ہمیں ان چیزوں پر غور سے سوچنا چاہیے اور انہیں دیکھنا چاہیے اور اس کا مداوا کرنا چاہیے ۔

عوام کیا بھیڑ بکریاں ہیں جو لاکھوں ووٹ دیتے ہیں اور اسمبلیوں میں بھیجتے اورتوقع کرتے ہیں انکے نمائندے وہاں حق کی بات کریں گے ،ظلم کا راستہ روکیں گے ،انصاف کی بات کریں گے باطل کو باطل اور حق کو حق کہیں اگر ہم نے یہ سب چھوڑ دیا تو عوام ہم پر کیا اعتماد کریں گے اور آپ ساری گیم میں بہت بڑے لوزر ہوں گے ۔ ان کو بھی تسلی نہیں ہوتی جب ان کا ووٹ پائوں تلے روندا جاتاہے اس کی حیثیت سامنے نہیں آتی ،احترام نہیں ہوتا ۔

ووٹ کا تقدس پامال ہوتا ہے اور ہم ان فیصلوں کے خلاف سٹینڈ نہیں لیتے اور حق کو حق نہیں کہتے ۔انہوںنے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہزاروں ،لاکھوں سال پاکستان کو آباد رکھے اور یہاںبہتری کا نظام آئے اور قائم رہے ۔ یہاں سکھا شاہی نہیں چلے گی ،کیا آپ سکھا شاہی چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے دامن میں ماشااللہ عمدہ کارکردگی ہے ،کوئی شک نہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے شہباز شریف نے کمال کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔

ہم سب نے دہشتگردی کے جن کو بوتل میں بند کیا ختم کیا ۔ایک بھی ایسا فیصلہ مان لینا انسانیت کی توہین ہے ضمیر کی توہین ہے اصولی موقف کی توہین ہے انسان کی جو بنیادی سوچ ہے اس کی توہین ہے ۔مجھے وزارت عظمیٰ کا شوق یالالچ نہیں کہ میں اس کے ساتھ زبردستی چمٹا رہوں لیکن کوئی زبردستی جھوٹی وجہ بنا ئے تو انسان کا ذہن اور دل قبول نہیں کرتا اس کو تسلیم کر لوں یہ نہیں ہو سکتا ۔

ہم اصول کو اصول کہیں گے بے اصولی کو بے اصولی کہیں گے اور اگر نہیں کہیں گے تو مجھے اس منصب پر رہنے کا کوئی حق نہیں اور اگر آپ نہیں کہیں گے تو آپ کو بھی اس منصب پر رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔ کب تک ہم اپنے ووٹ کی تذلیل برداشت کرتے رہیں گے اوردیکھتے رہیں گے ،کب تک دوسروں کو اپنے ووٹ کو اپنے پائوں تلے روندنے کی اجازت دیں گے ، کیا ہمارے دل کے اندر ضمیر نہیں ہے ۔

ہمیں کہنا ہوگا کہ یہ چیز ٹھیک اور یہ ٹھیک نہیں ہے اگر کوئی کوشش کرے تو ہم کہیں کہ ہم عوام کی حاکمیت کے ساتھ تمہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے ۔ستر سال ہو گئے ہیں لیکن آئندہ ستر سال گزشتہ ستر سالوں جیسے نہیں گزرنے چاہئیں۔ نواز شریف نے کہا کہ آپ آمروں کے ہاتھ بیعت کرتے رہو ،آپ پی سی او کے تحت حلف لیتے رہو ہم آپ کے منہ سے فیصلے سنتے رہیں ہم آپ کے فیصلوں کی تعظیم کرتے رہیں ،آپ سب سے بڑا گناہ کہ ملک کے آئین کو چھوڑکر ایک فوجی آمر کا حلف لیتے ہیں اس سے بڑ ا جرم کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کہاں ہے ووٹ کی حرمت ،کہاں ہے ،کوئی جب چاہیے کان سے پکڑ کر باہر نکادے ، پھر کہاں گئی ووٹ کی حرمت کہاں ہے عوام کی حاکمیت کیا یہ حاکمیت ہے ۔ ہم جس کام کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں یہ ہے حاکمیت ہے ،کہاں ہے ووٹ کا تقدس اورکہاں آج عوام کی حکمرانی ،کہاں ووٹ اور ہماری عزت ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ بہت ہو گیا بہت لیڈر پھانسی چڑھ گئے جلا وطن ہو گئے جیلوں میں گئے قلعوں میں بند رہے ۔

ڈکٹیٹر کے خلاف ایک کیس مکمل نہیں ہو سکا ۔یہ بھی پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ہم نے کیس رجسٹرکیا ۔آمر نے دو دفعہ مارشل لاء لگایا عدالتوںکو تالے لگا کر ججز کو نظر بند کیا ،ان کے خلاف تو کسی کو ایکشن لینے کی ہمت نہیں وہاں پر جلتے ہیں ان کو ہاتھ لگاتے ہیں لیکن سیاستدان آسان ٹارگٹ ہیں ان کو پکڑ لو اٹھا لو جلا وطن کر دو ما ر دو قتل کر دو جیلوں میں ڈال دو ہتھکڑیاں لگا دو ۔

اس نظام کے چلانے کے لئے پاکستا ن بنانا ہے تو پھر مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ میں یہ نظام قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں ،میں تو بالکل تیار نہیں ہوں مجھے اس نظام کو ختم کرنے کے لئے جتنی جدوجہد کرنا پڑی میں کروں گا ،پاکستان میں ایسا نظام لانے کے لئے جہاں ووٹ کی حکمرانی اور تقدس اور عزت اور احترام ہو آپ کی بات اسمبلیوں میں سنی جائے اور آ پ کے بنائے ہوئے قانون کو کوئی اور توڑ نہ سکے میں اس کیلئے جدوجہد کروں گا ۔

یہ میرے ضمیر کی آواز ہے مجھے کوئی لالچ نہیں یا اقتدار کی خواہش نہیں ۔یہ میرے ضمیر کی آواز ہے کہ پاکستان کے عوام کوستر سالوں سے حق نہیں مل سکا انہیں حق دلایا جائے اوران کی حکمرانی مکمل طور پر نافذ ہو ۔انہوںنے کہا کہ ہم سارے پاکستان کی خیر چاہتے ہیں، ہم سندھ کی خیر چاہتے ہیں ۔کراچی جا کر دیکھیں اندرون سندھ میں دیکھیں تو مٹی گرد غبار توڑ پھوڑ ہے ،کراچی شہر جو کسی زمانے میں قابل فخر ہوتا تھا وہاں اب مٹی کا ڈھیر لگا ہوا ہے ،ہم کراچی کو بھی لاہور جیسا دیکھنا چاہتے ہیں، پشاور بھی گر د وغبار سے بھرا ہوا تھا وہاں کچھ نہیں کیا گیا ، نئے پاکستان والے کہاں کی بات کرتے ہیں ، ہم کوئٹہ کو بھی لاہور جیسا دیکھنا چاہتے ہیں،ہم باقی شہروں کو بھی ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں او ریہی (ن) لیگ کا یجنڈا رہا ہے ۔

کسی اور پارٹی کا ترقی کا ایجنڈا تھا ہی نہیں ، یہ الحمد اللہ (ن) لیگ کا ریکارڈ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کا کرم ہے آپ کے دامن میں ایک شاندار کارکردگی بھی ہے ۔انتخابات آرہے ہیں اور الحمدا للہ طاقتور بیانیہ بھی ہے قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اور آپ نے یہی بیانیہ لے کر قوم کے پاس جانا ہے اور یہی بیانیہ لے کر جائیں ،اللہ تعالیٰ آپ کے دشمنوں کو شکست سے دوچار کرے گا ۔

انہوںنے کہا کہ یہاں دوسرے صوبوں سے بھی صاحبان آئے ہوئے ہیں ۔ہم نے موٹر ویز بنائی ہیں لاہور سے کراچی تک موٹروے بن رہی ہے ،لاہور سے ملتان موٹر وے اگلے دو تین ماہ میں مکمل ہو جائے گی ،ملتان سے آگے سکھر چند ماہ میں مکمل ہو جائے گی ،سکھر سے کراچی حیدر آباد مکمل ہو چکی ہے ،ایسی حکومت یا پارٹی کا نام لیں جس نے پاکستان میںاتنا بڑا منصوبہ بنایا ہوا ۔

یہاں بجلی کا بحران پیدا کیا گیا لیکن کسی نے اس کے حل کیلئے کچھ نہیں کیا ،یہاںدہشتگردی عروج پر تھی اس کو ختم کرنے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا گیا۔ ہم نے بجلی کا بحران ختم کیا ،کراچی کا امن ہم نے قائم کیا ہے ،لاہور ترقی یافتہ شہر بن گیا ہے ، ملتان کے اندر اورراولپنڈی کے اندر میٹرو بسیں چل رہی ہے اسلام آباد میں انٹر نیشنل ہوائی اڈا بن رہا ہے جو اگلے دو ماہ میں مکمل ہو جائے گا ۔

ہم نے خیبر پی کے میں موٹر وے بنا دی ہے ،وہاں کے لوگوں کو بھی بجلی نہ آنے سے تکلیف تھی جو آج بجلی کے آنے سے سکھ کا سانس لے رہے ہیں ۔گلگت بلتستان میں گلگت سے سکردو تک سڑک بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں تقریباً پچیس سے چالیس ارب روپے خرچ ہوں گے ۔ پہلے اس کا کل ترقیاتی بجٹ آٹھ ارب روپے تھا جو ہم نے آکر بڑھایا ہے اور اٹھارہ ارب روپے کیا ہے چوالیس ارب روپے کی ہائی وے زیر تعمیر ہے ۔

اسی طرح آزاد کشمیر کا بجٹ ساڑھے گیارہ ارب تھا جوآج بائیس ارب ہے ۔انہوں نے کہاکہ کتنا افسوسناک امر ہے کہ اس کے بعد بھی نا اہلی ہے ،اس کی وجوہات کو آپ سمجھتے ہیں ۔کوئی شخص مجھے اتنا بتا دے کہ اس کا دل اس فیصلے کو مانتا ہے اس کے دل نے اسے تسلیم کیا ہے کہ یہ فیصلہ درست ہے ۔انہوںنے کہا کہ امتحان آنے والا ہے انتخابات آنے والے ہیں خلق خدا اپنا فیصلہ سنائے گی جو نظر آرہا ہے جو فیصلہ انہوں نے کیا ہے اس کو رد کریں گے پھر آپ کے فیصلے کا کیا حال ہوگا ۔

انہوںنے کہا کہ وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے بعد یہاں نہیں رکے اس کے بعداسی بنیاد پر پارٹی صدارت سے نا اہل کر دیا ۔جو ٹیڑھی بنیاد ہے اس پر ٹیڑھی عمارت کھڑے کرنے جارہے ہیں ۔ عوام نے پہلا فیصلہ قبول نہیں کیا اوردوسرے فیصلے پر عوام کا رد عمل اورشدید ہوا ہے ۔ہم نے فیصلوں پر عمل کیا ہے لیکن کیا دل تسلیم کرتا ہے کیا انہیں دل سے تسلیم کیا جا سکتا ہے ، جس فیصلے کو خلق خدا تسلیم نہ کریں پھر اس فیصلے کی کیا حیثیت ہے تو فیصلے کا کیا حال ہوگا ،کیوں اس طرح صادر کئے جاتے رہے ہیں ، ستر سال سے اس ملک میں کیا ہوتا رہا ہے ،ایک گٹھ جوڑ ہے جس نے پاکستان کو یہاں تک پہنچایا ہے اور ابھی تک ہماری جان نہیں چھوڑ رہا ،یہ افسوسناک امر ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

میں نے اس فیصلے کے خلا ف رد عمل دیا ہے اوریہ بڑا جائز ہے اور اس میں پاکستان کے عوام بھی شامل ہیں۔کیا بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزارت عظمیٰ سے نکالے جانے کے فیصلے کو منظور کر لیتا اور آرام سے گھر بیٹھ جاتا ،پھر میں آپ کو اورعوام کو کیا منہ دکھاتا ۔

متعلقہ عنوان :