ہم ایسی ریاست میں رہتے ہیں جو اسلامی جمہوریہ کہلاتی ہے، جسٹس اعجاز افضل خان

اگر ریاست اپنی ذمہ داری میں ناکام ہو جائے تو یاد دلانے کے لیے لوگ آگے آتے ہیں، لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس لاپتہ افراد کمیشن نے میری رجسٹر ڈاک سے بھیجی گئی درخواستیں بھی واپس کردی تھیں، آمنہ مسعود جنجوعہ، سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی

پیر 26 فروری 2018 17:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 فروری2018ء) سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم ایسی ریاست میں رہتے ہیں جو اسلامی جمہوریہ کہلاتی ہے لیکن اگر ریاست اپنی ذمہ داری میں ناکام ہو جائے تو یاد دلانے کے لیے لوگ آگے آتے ہیں۔پیر کے روز جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ واضح کر چکے ہیں کسی کے خلاف مقدمہ ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، دوران سماعت آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ وقت نہیں دے رہے اور اپنے دروازے جان بوجھ کر بند کردیئے ہیں۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ جب عدالت کے سامنے کوئی مواد ہی نہ ہو تو کیا کر سکتے ہیں، جس پر آمنہ مسعود جنجوعہ نے وضاحت پیش کی کہ لاپتہ افراد کمیشن نے میری رجسٹر ڈاک سے بھیجی گئی درخواستیں بھی واپس کردی تھیں، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جو درخواستیں واپس کی ان کی تفصیلات سے آگاہ کریں اور ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایا کہ وزیر داخلہ احسن اقبال کو معاملہ اعلٰی سطح پر اٹھانا چاہیے اور لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کے لیے پالیسی دینی چاہیے، دوران سماعت سیکریٹری لاپتہ کمیشن نے بتایا کہ 3 ہزار کیس نمٹا دیئے ہیں تاہم 577 باقی ہیں, جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اگر مقدمہ نہیں تو حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

(جاری ہے)

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :