امریکہ فوج نے افغانستان میں داعش کے جنگجوئوں سے متعلق روسی دعوے کو مسترد کردیا

روس اور ایران داعش کو شکست دینے کیلئے طالبان کی بجائے افغان حکومت کی مدد کریں،روس کی طرف سے داعش کے جنگجوں کی بتائی جانے والی تعداد میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی ہے،داعش کے عسکریت پسند مشرقی صوبے ننگر ہار اور کنڑ کے علاقوں اور شمالی صوبے جوزجان کے کچھ علاقوں میں سرگرم ہیں افغانستان میں بین الاقوامی فورسز کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کی پریس کانفرنس

اتوار 25 فروری 2018 15:10

کابل /واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 25 فروری2018ء) امریکہ کی فوج نے روس کے ان دعوئوں کو مسترد کیا ہے کہ افغانستان میں شدت پسند گروپ داعش کے عسکریت پسندوں کی تعداد ہزارو ں میں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روس اور ایران پر زور دیا ہے کہ وہ داعش کو شکست دینے کے لیے طالبان کی بجائے افغان حکومت کی مدد کریں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق افغانستان میں بین الاقوامی فورسز کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے یہ بیان روس کے ان الزاما ت کے جواب میں دیا کہ واشنگٹن ارادی طور پر ملک میں داعش کے عسکریت پسندوں کے پھیلنے کے معاملے کو اہمیت نہیں دے رہا ہے۔

جنرل نکلسن نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ روس کی طرف سے داعش کے جنگجوں کی بتائی جانے والی تعداد میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی ہے۔

(جاری ہے)

یہ(تعداد) تقریبا 1500 ہے۔امریکی جنرل نے کہا کہ داعش کے عسکریت پسند مشرقی صوبے ننگر ہار اور کنڑ کے علاقوں اور شمالی صوبے جوزجان کے "کچھ علاقوں " میں سرگرم ہیں۔نکلسن نے کہا کہ افغان فورسز امریکہ کے انسداد دہشت گردی کے دستوں اور فضائی مدد سے ان تین مقامات پر حملے کر رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "گزشتہ دو سالوں کے دوران ہم نے ان کی تعداد کو نصف کر دیا ہے۔ ہم نے ان کے امیر کو ہلاک کر دیا ہے۔ ہم نے دوبارہ سے ان کے زیر قبضہ علاقے کو کم کردیا ہے اور ہم نے ان کے جنگجوں کو ملک کے بعض حصوں سے نکال باہر کیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ماسکو میں گفتگو کرتے ہوئے زور دے کر کہا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں داعش کے دہشت گرد افغانستان کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں موجود ہیں اور شام اور عراق سے بھاگ کر آنے والے عسکریت پسند بھی ان میں شامل ہو رہے ہیں۔

افغانستان کے ہمسایہ ممالک ایران اور پاکستان میں بھی عہدیدار افغانستان میں " داعش کے تیزی سے ابھرنی" کے الزامات عائد کرتے ہوئے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی منصوبہ بندی سرحد پار افغان علاقے میں داعش کے مبینہ ٹھکانوں میں کی جا رہی ہے۔نکلسن داعش کی صفوں میں غیر ملکی جنگجوں کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی تعداد "بہت کم" ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم نے شام اور عراق سے غیر ملکی جنگجوں کو افغانستان کی طرف منتقل ہوتے نہیں دیکھا ہے۔امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ داعش کے افغان دھڑے کو "کچھ وقت تک" شام اور عراق سے مالی امداد اور "رہنمائی" ملتی رہی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اتحادی فورسز کی طرف سے ان ملکوں میں داعش کو کمزور کرنے کی وجہ سے اب یہ حمایت کم ہو گئی ہے۔لاوروف نے رواں ہفتے ماسکو میں ایک بیان میں ایک بار پھر الزام عائد کیا تھا کہ "نامعلوم ہیلی کاپٹرز ممکنہ طور پر وہ ہیلی کاپٹر ہیں جن کے ساتھ کسی طور نیٹو منسلک ہے اور وہ ان علاقوں میں پرواز کرتے ہیں جہاں باغی موجود ہیں اور ابھی تک کسی نے بھی ان پروزاوں کی وضاحت نہیں کی ہے۔

"ایرانی رہنماں اور فوجی عہدیدار تواتر کے ساتھ امریکہ پر افغانستان میں داعش کو ابھرنے میں درپردہ مدد کرنے کا الزام کر رہے ہیں۔دوسری طرف امریکی اور افغان عہدیدار ماسکو، تہران اور اسلام آباد پر طالبان کی باغیانہ سرگرمیاں میں ان کی مدد کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ پاکستان طالبان باغیوں سے کسی بھی طرح کے رابطوں سے انکار کرتا ہے جبکہ روس اور ایران کا موقف ہے کہ ان کے طالبان کے ساتھ رابطوں کا مقصد ان کی افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

امریکی عہدیدار ان دعوں سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے روس کے اس تعلق کو افغانستان کو مستحکم اور محفوظ بنانے کی بین الاقوامی کوششوں کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ روس اور ایران یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں حکومت کی عملدار ی کمزور ہونے کی وجہ سے طالبان افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روک رہے ہیں۔جنرل نکلسن نے اس رائے کو مسترد کرتے ہوئے اسے "خام خیالی" قرار دیا اور کہا کہ امریکہ کی معاونت سے افغان فورسز نے داعش کو کمزور کر دیا ہے اور علاقائی ممالک ان کوششوں میں مدد کریں۔