پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس و جائیدادوں کا معاملہ،سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی نے قوانین میں ترمیم کی سفارش ،کمیٹی نے سفارشات پر مبنی اپنی رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں جمع کرا دی

پروٹیکشن اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992، انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ترمیم کی ضرورت ہے، پاکستانیوں کو بیرون ممالک اثاثے ظاہر اور واپس لانے کیلئے ایک موقع ملنا چاہیے، رپورٹ

ہفتہ 24 فروری 2018 22:48

پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس و جائیدادوں کا معاملہ،سپریم کورٹ کی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 فروری2018ء) پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس و جائیدادوں کا معاملہ پر سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی نے قوانین میں ترمیم کی سفارش کر دی ہے جبکہ کمیٹی نے سفارشات پر مبنی اپنی رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے، پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس میں پڑی رقم ملک میں واپس لانے کے حوالے سے اصول طے کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے بنائی گئی تین رکنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے، جس میں قوانین میں تبدیلی کی سفارش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ پروٹیکشن اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992، انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ترمیم کی ضرورت ہے،پاکستانیوں کو بیرون ممالک اثاثے ظاہر اور واپس لانے کیلئے ایک موقع ملنا چاہیے، قانونی فریم ورک میں غیرملکی زرمبادلہ رکھنے اور منتقل کرنے کی آزادی ہے، قانونی فریم ورک میں ترمیم کر کے ضروری چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیرملکی کرنسی اکاؤنٹ میں زرمبادلہ رکھنے کی ممانعت ہو، غیرملکی زرمبادلہ کو ظاہر کیے بغیر اس کی منتقلی پر پابندی ہو، بیرون ممالک اثاثے رضاکارانہ واپس لانے کیلئے ایک بار موقع کارآمد ثابت ہوگا، اس اسکیم کا اطلاق کرپشن اور مجرمانہ کارروائیوں سے حاصل رقم پر نہیں ہوگا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کو بیرونی حلقوں سے پناما،بہاماس اورپیراڈائز لیکس میں سے متعلق معلومات نہیں مل سکیں، تینوں لیکس میں نام آنے والوں کی معلومات حاصل کرنے کیلئے سفارتی کوششیں بھی کارگر ثابت نہ ہوئیں، رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے ایس ای سی پی اور ایف آئی اے سے مل کر آف شور کمپنیوں کے مالکان کی معلومات حاصل کیں، ایف بی آر پانچ اور دس سال پرانے مقدمات کی تحقیقات میں بے بس ہے، ایف بی آر کو نان ریزیڈنٹ پاکستانیوں کی چھان بین کا اختیار بھی نہیں، رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا ہے کہ یو اے ای میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے 55 پاکستانیوں کے معاملہ پر ایف بی آرکام کر رہا ہے، ایس ای سی پی نے ملک میں 155 ایسے پاکستانیوں کی نشاندہی کی ہے جو 600 کمپنیوں میں ڈائریکٹرز ہیں،600 میں سے صرف 5 کمپنیوں نے اپنے بیرون ممالک اثاثے ظاہر کیے ہیں، ان 600 کمپنیوں کی تفصیلات ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کو دی جا چکی ہیں، یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے گورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے، سپریم کورٹ میں بیرون ممالک پاکستانیوں کے اثاثوں سے متعلق کیس 28 فروری کو سماعت ہوگی

متعلقہ عنوان :