وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایل ایس ڈی کے شکار مریضوں کے علاج کے لیے مالی معاونت کریں ،ْڈاکٹرطاہرشمسی

ہفتہ 24 فروری 2018 16:10

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 فروری2018ء) لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرز(ایل ایس ڈی)کی کور کمیٹی اور ماہرین کے پینل نے صدرِ پاکستان، وزیرِ اعظم، گورنرز، صوبائی وزرائے اعلی اور وزرائے صحت سے ایل ایس ڈی کے شکار مریضوں کے علاج کے لیے مالی معاونت کی اپیل کی ہے تاکہ وہ بھی ایک صحت مند زندگی گذارنے کے قابل ہوسکیں۔لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرزکے موضوع پر ایک معلوماتی سیمینار کراچی کے موون پک ہوٹل میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیزز کے زیرِ اہتمام منعقد کیا گیا۔

ایل ایس ڈی کی کور کمیٹی، بچوں کے علاج کے ضلعی ماہرین ، ایل ایس ڈی کے مریض اور ان کے والدین نے شرکت کی اور آپس میں تبادلہ خیال کیا۔طبی ماہرین کے پینل کے ارکان نے سیمینار میں تقاریر کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مریضوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے اسکریننگ، بروقت اور درست تشخیص ، مناسب انزائم تھراپی اور بحالی کے لیے سہولیات فراہم کرے۔

(جاری ہے)

حکومت کو مریض بچوں کے علاج کے لیے انزائم تھراپی کی دستیابی بھی یقینی بنانی ہوگی تاکہ وہ علاج کے بعد ایک صحت مند زندگی گذارتے ہوئے ذمہ دار شہریوں کی طرح ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائیں۔اس موقع پر ملک کے ممتاز ہیماٹولوجسٹ پروفیسر طاہر شمسی نے کہاکہ حکومت کو نمایاں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایل ایس ڈی کے شکار مریضوں کے اہلِ خانہ ملک بھر میں حکومت سے اپنے بچوں کے علاج کے لیے رابطہ کر رہے ہیں تاکہ وہ ایک صحت مند زندگی گذارنے کے قابل ہوسکیں۔

پاکستان میں حکومت کی جانب سے اسکریننگ، بروقت اور درست تشخیص ، مناسب انزائم تھراپی اور بحالی کے لیے سہولیات کی فراہمی کی ضرورت ہے۔ زچگی کے دوران ایل ایس ڈی کی تشخیص کے مراکز کے قیام کی ضرورت ہے تاکہ ایسے مریضوں کا قبل از پیدائش پتہ لگ سکے۔ ان بیماریوں کے مریضوں کی قلیل تعدا د ہونے کے باعث حکومت کو فوری طور پر ان کے مفت علاج کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

مقررین نے حکومت سے لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرزکے مریضوں کے لیے پالیسی کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ انزائم تھراپی پر مشتمل علاج پاکستان میں مریضوں کی اکثریت کی استطاعت سے باہر ہے۔ لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرز کے مریض ان بیماریوں کے باعث پیش آنے والی آزمائشوں سے نمٹتے ہوئے غیر معمولی حوصلے، صبر اور وقار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

مقررین نے ایسے مریضوں کے ساتھ تعاون کے لیے حکومتِ پاکستان کو ایک خصوصی فنڈ مختص کرنے کا مشورہ دیا۔ ماہرین نے کہاکہ ان مریضوں کی بیت المال سے مالی امداد اور ایک 'آرفن ڈرگ پالیسی کی بھی ضرورت ہے۔لائسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈرزجینیاتی عارضوں کا ایک گروپ ہے۔ یہ انسانی جسم میں مخصوص فضلوں کی مصنوعات کو توڑنے کے لیے درکار انزائم میں خرابی ہوجانے کے باعث لاحق ہوتی ہیں۔

یہ عمل خلیات کے عام فعل میں دخل اندازی کا سبب بن جاتا ہے جس کا نتیجہ جگر اور تلی کے غیر معمولی بڑھ جانے، خون کی بار بار منتقلی، ہڈیوں کی ساخت میں تبدیلی اور سینے کی بیماریوں کی صورت میں نکلتا ہے۔تشخیص مریض کی عمر اور ایل ایس ڈی کی قسم اور شدت کے مطابق مختلف ہوسکتی ہے۔ زیادہ تر بچوں میں ایک سال کی عمر کے اندر اندر تشخیص ممکن ہے۔ لاعلمی کے باعث تشخیص میں عموما تاخیر ہوتی ہے اور متاثرہ بچے کم عمری میں ہی موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ایل ایس ڈی کی تشخیص ماضی میں ایک مشکل عمل تھا کیونکہ نمونے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا اور انڈیا بھیجنے پڑتے تھے۔ فی ٹیسٹ خرچہ کم از کم 12 سے 15 ہزار روپے تھا اور رپورٹ آتے آتے تین سے چار ماہ کا عرصہ درکار ہوتا تھا۔ اب ایل ایس ڈی کے لیبارٹری ٹیسٹ صنوفی جنزائم کی جانب سے بغیر کسی اخراجات کے فراہم کی جارہی ہے ۔ اس ادارے کا شمار ایل ایس ڈی کے علاج کے لیے صفِ اول میں کیا جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایل ایس ڈی کے قابل ِ علاج نئے مریضوں کی سالانہ تعداد سو سے زائد ہے۔ چلڈرن ہاسپٹل لاہور میں اندراجات کے مطابق ایل ایس ڈی کے مختلف عوارض کے قابلِ علاج مریضوں کی تعداد 350 سے زائد ہے۔ اس میں زیادہ تعداد گوچے اور ایم پی ایس ون کے مریضوں کی ہے۔ پچھلے سال کے دوران تیس کے قریب مریض زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔

صرف کراچی میں پچاس سے زائد مریضوں میں ایل ایس ڈی کی بیماریاں تشخیص ہوئی ہیں اور پچھلے سال کے دوران کراچی میں تقریبا سات مریض موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ان بیماریوں کا علاج ایک تکلیف دہ موت کو صحت مند زندگی میں تبدیل کر سکتا ہے لیکن یہ علاج بہت مہنگا ہے۔ ان بیماریوں کے شکار بچوں کو اپنے آپ کو لاحق عارضوں سے لڑنے کے لیے ڈاکٹرز، حکومت، غیر سرکاری تنظیموں، مخیر حضرات، مریضوں کے اپنے خاندان کے افراد ، دوا ساز اداروں اور مریضوں کی امداد کے لیے مصروفِ عمل تمام متعلقہ اداروں اور انفرادی شخصیات کی جانب سے منظم کوششوں کی ضرورت ہے۔

متعلقہ عنوان :