افغانستان میں طالبان کے خونریز حملے، 25فوجیوں سمیت تیس افراد ہلاک

طالبان کا چیک پوسٹ پر قبضہ، کئی گھنٹے تک دوبدو لڑائی ،کابل حملے میں دوافرادہلاک ہوگئے،افغان وزارت داخلہ

ہفتہ 24 فروری 2018 14:40

کابل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 فروری2018ء) افغانستان کے تین صوبوں میں عسکریت پسندوں کے متعدد نئے خونریز حملوں میں 25سرکاری فوجیوں سمیت 30 افراد ہلاک ہو گئے۔ طالبان بعد ازاں جاتے ہوئے اس چیک پوسٹ پر موجود تمام ہتھیار بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ادھر عسکریت پسندوں کی طرف سے ایک خود کش حملہ کابل میں بھی کیا گیا، جس میں کم از کم دو افراد ہلاک اور سات زخمی ہو گئے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغان حکام نے ہفتہ کو بتایا کہ ان میں سے ایک بہت بڑا حملہ صوبے فراہ میں کیا گیا۔ادھرہفتے کی صبح عسکریت پسندوں کی طرف سے ایک خود کش حملہ کابل میں بھی کیا گیا، جس میں کم از کم دو افراد ہلاک اور سات زخمی ہو گئے۔افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بتایا کہ کابل میں یہ خود کش بم حملہ ایک ایسی جگہ پر کیا گیا، جہاں سے ملکی خفیہ ادارے کا دفتر، امریکی سفارت خانہ اور کئی دیگر ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے دفاتر زیادہ دور نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ عسکریت پسندوں نے ملک کے مغربی صوبے فراہ کے ضلع بالا بلوک میں ایک بڑا حملہ افغان فوج کی ایک چیک پوسٹ پر بھی کیا، جس میں 25 سرکاری فوجی مارے گئے۔ فراہ کی صوبائی کونسل کے رکن خیر محمد نورزئی کے مطابق یہ حملہ رات گئے کیا گیا، جس کے بعد وہاں فریقین کے مابین ہونے والی خونریز لڑائی ہفتے کی صبح تک جاری رہی۔نورزئی نے بتایا کہ یہ حملہ طالبان عسکریت پسندوں نے کیا، جنہوں نے کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے فائرنگ کے تبادلے اور دو درجن سے زائد سرکاری فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کچھ دیر کے لیے اس چیک پوسٹ پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔

اس افغان سیاست دان کے مطابق طالبان بعد ازاں جاتے ہوئے اس چیک پوسٹ پر موجود تمام ہتھیار بھی اپنے ساتھ لے گئے۔اسی دوران طالبان عسکریت ہسندوں نے دو دیگر حملے لشکر گاہ نامی ایک صوبائی دارالحکومت اور ناد علی نامی ضلع میں بھی کیے، جن میں کم از کم تین افراد ہلاک اور 17 زخمی ہو گئے۔ ان میں سے لشکر گاہ میں کیا جانیو الا حملہ ایک کار بم دھماکا تھا۔

ہلمند کی صوبائی کونسل کے رکن عبدالاحد سلطان زئی کے مطابق لشکر گاہ میں یہ کار بم دھماکا افغان خفیہ ایجنسی کے ایک دفتر کی پارکنگ میں کیا گیا۔ ہلمند کے صوبائی گورنر کے ترجمان نے بھی تصدیق کر دی کہ اس حملے میں تین افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر افغانستان کے کم از کم تین مختلف صوبوں میں کئی اہم مقامات پر کیے جانے والے یہ خونریز خود کش اور کار بم حملے ظاہر کرتے ہیں کہ ہندو کش کی اس ریاست میں طالبان اور دیگر مسلح گروپوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند اپنی وہ مسلح کارروائیاں کتنی تیز کر چکے ہیں، جن کے ذریعے وہ افغان فوجیوں، سکیورٹی اداروں اور ریاستی اہلکاروں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔