خواتین کو بااختیاربنانے میں خیبرپختونخوا دیگر صوبوں سے کہیں آگے ہے، عمران خان

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنگلات کی رائلٹی براہ راست خواتین کو دی جارہی ہے، چترال سے اس کا آغاز کیاگیا ہے، تحریک انصاف کے چیئرمین کا ٹویٹ

جمعہ 23 فروری 2018 15:00

خواتین کو بااختیاربنانے میں خیبرپختونخوا دیگر صوبوں سے کہیں آگے ہے، ..
اسلام آباد/لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 فروری2018ء) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہاہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار جنگلات کی رائلٹی براہ راست خواتین کو دی جارہی ہے۔خیبر پختونخواہ حکومت نے جنگلات کی رائلٹی میں پہلی بار خواتین کو بھی حصے دار بنایا ہے اور اس کا آغاز ضلع چترال سے کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے خواتین کو بااختیار بنانے کے اقدامات پر پختونخوا حکومت کی تعریف کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے میں خیبر پختونخوا دیگر صوبوں سے کہیں آگے ہے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنگلات کی رائلٹی براہ راست خواتین کو دی جارہی ہے اور چترال سے اس کا آغاز کیاگیا ہے۔

یہ رائلٹی عنقریب مالاکنڈ کو دی جائے گی۔

(جاری ہے)

دریں اثناء بربرطانوی نشریاتی ادار کی رپورٹ میں کہاگیا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے جنگلات کی رائلٹی میں پہلی مرتبہ خواتین کو بھی حصہ دار بنا دیا ہے اور اس کا آغاز دور افتادہ ضلع چترال سے کیا گیا ہے۔چترال کے سب ڈویژن دروش میں اب تک ہر گھر کے صرف مردوں کو جنگلات کی رائلٹی میں حصہ دیا جاتا تھا لیکن اب خواتین کو اس میں شامل کر دیا گیا ہے۔

دوسرے مرحلے میں یہ اقدام ملاکنڈ میں شروع کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں ضلع چترال میں انتظامیہ، محکمہ جنگلات اور مقامی حکومتوں کی خواتین کونسلرز کے درمیان اجلاس منعقد ہو چکے ہیں جس میں خواتین کو رائلٹی میں حصہ دار بنانے کے لیے اقدامات پر غور کیا گیا تھا۔ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سوڈر نے بی بی سی کو بتایا کہ جنگلات سے ہونے والی آمدن میں ساٹھ فیصد مقامی کمیونٹی اور چالیس فیصد حکومت کا حصہ ہوتا ہے۔

مقامی کمیونٹی میں اب تک خاندان کے صرف مرد افراد کو ہی حصہ ملتا تھا خواتین اس میں شامل نہیں تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ صرف مرد حضرات پر مشتمل ایک گھرانے کو لگ بھگ ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے ملتے تھے، اس میں خواتین شامل نہیں تھیں لیکن اب خواتین کو شامل کرنے کے بعد دوبارہ سے تقسیم کا عمل ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ضلعی انتظامیہ کے پاس تقریبا ساڑھے گیارہ کروڑ روپے پڑے ہیں جو ان لوگوں میں تقسیم کیے جائیں گے۔

سب ڈویژن دروش سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سرکاری افسر سیدگل کیلاش نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ خواتین کی بہتری کے لیے حکومت کا بڑا فیصلہ ہے اور اس سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں ایسی خواتین ہیں جن کے شوہر اور بیٹے نہیں ہیں، اس لیے وہ اس حق سے محروم تھیں جبکہ وہ خاندان جن کے ہاں بیٹیاں ہیں وہ بھی یہ حق حاصل نہیں کر سکتے تھے لیکن اب ایسے خاندان بھی اس سے متفید ہو سکیں گے۔

مقامی صحافی گل حماد فاروقی نے بتایا کہ دروش کے علاقے میں گھنے جنگلات ہیں جو بروغل تک پھیلے ہوئے ہیں اور حکومت کے اس فیصلے سے جنگلات محفوظ ہوں گے اور مقامی آبادی کو فائدہ ہوگا۔مقامی انتظامیہ کے مطابق ماضی میں کمیٹی لوگوں میں رقم تقسیم کرتی تھی جس سے مقامی لوگوں تک ان کا حق نہیں پہنچ پاتا تھا۔یہ فیصلہ چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا نے دور افتادہ علاقوں میں آباد لوگوں کو ان کا حق پہنچانے کے لیے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں ایسے علاقے ہیں جہاں سے گیس اور تیل کے پیدا ہوتی ہیں لیکن اب تک ان علاقوں کے بارے میں اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔