عراق و شام کی کاروائیوں میں 841 عام شہری مارے گئے،اتحادی قوتوں کا اعتراف

شام میں جاری خانہ جنگی میں شدت آگئی ، مشرقی غوطہ میں روسی حمایت یافتہ شامی حکومت کی فورسز کی شدید بمباری سے 5 روز کے دوران 400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے،عرب ٹی وی اتوار سے جاری وحشیانہ بمباری میں 150 بچوں سمیت 403 افراد ہلاک اور 2 ہزار 120 افراد زخمی ہوئے ،رپورٹ

جمعہ 23 فروری 2018 14:45

دمشق(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 فروری2018ء) داعش کے خلاف برسر پیکار امریکہ کی زیر قیادت اتحادی قوتوں نے اعتراف کیا ہے کہ عراق و شام میں اب تک کے حملوں میں 841 عام شہری مارے جا چکے ہیں جبکہ شام میں جاری خانہ جنگی میں شدت آگئی اور مشرقی غوطہ کے علاقے میں روسی حمایت یافتہ شامی حکومت کی فورسز کی شدید بمباری سے 5 روز کے دوران 400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔

غیر ملکی میڈ یا کے مطابق داعش کے خلاف برسر پیکار امریکہ کی زیر قیادت اتحادی قوتوں نے اعتراف کیا ہے کہ عراق و شام میں اب تک کے حملوں میں 841 عام شہری مارے جا چکے ہیں۔ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ سن 2014 کے آخر سے اب تک اتحادی قوتوں کے حملوں مین 841 عام شہری مارے گئے جبکہ 485 افراد لاپتہ ہوئے۔ اتحادی قوتوں نے گزشتہ مہینے میں اپنے ایک بیان مین 830 عام شہری مارے جانے کا اعلان کیا تھا۔

(جاری ہے)

دوسری جانب شام میں جاری خانہ جنگی میں شدت آگئی ہے اور مشرقی غوطہ کے علاقے میں روسی حمایت یافتہ شامی حکومت کی فورسز کی شدید بمباری سے 5 روز کے دوران 400 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔عربی نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شامی مبصرین برائے انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ اتوار سے جاری وحشیانہ بمباری میں 150 بچوں سمیت 403 افراد ہلاک ہوئے جبکہ تقریبا 2 ہزار 120 افراد زخمی ہیں۔

دوسری جانب گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں شام کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر اسٹیفن دی مستورا نے اس بات پر زور دیا کہ مشرقی غوطہ میں فوری طور پر سیز فائر کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ مشرقی غوطہ میں انسانی حقوق کی حالت انتہائی خطرناک ہے لہذا ہمیں سیز فائر کی ضرورت ہے تاکہ وہاں وحشیانہ بمباری کو روکا جاسکے اور دمشق میں بھی جاری اندھا دھند شیلنگ بند ہوسکے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سیز فائر کے ذریعے وہاں انسانی حقوق کی سہولیات فراہم کی جاسکیں گی اور زخمی لوگوں کا مشرقی غوطہ سے باہر علاج کیا جاسکے گا۔دوسری جانب مشرقی غوطہ میں بے گھر رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے اور نہ ہی کہیں چھپ سکتے ہیں۔مشرقی غوطہ کے ایک کار مکینک ہے رفعات الابراہم کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ دنوں میں بمباری کے باعث وہ اپنی ملازمت کھو چکا ہے کیونکہ جہاں وہ کام کرتا تھا وہ جگہ تباہ ہوگئی۔

رفعات الابراہم کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے کچھ اوزار اور چیزیں وہاں سے نکال لی ہیں، جنہیں وہ کاروں کی مرمت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان اوزار کا زیادہ استعمال اپنے تحفظ کے لیے استعمال ہونے والی ایمبولینس کی مرمت کے لیے کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بعض اوقات اس جگہ بھی بمباری کی جاتی ہے جہاں وہ کام کر رہے ہوتے ہیں جس کے بعد انہیں فوری طور پر عام شہریوں کی مدد کے لیے بھاگنا پڑتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ روز اس طرح کے خوفناک واقعات رونما ہورہے ہیں جن کو بیان کرنا مشکل ہے، انہوں نے ایک واقعہ کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ روز ایک بچے کے والدین اپنے بچے کی لاش گود میں رکھے ہوئے رو رہے تھے اور اس بچے کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی تھی اور وہ مدد کے لیے چلا رہے تھے۔اپوزیشن کی زیر مشرقی غوطہ کا علاقہ دارالحکومت دمشق کے اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے اور یہاں 4 لاکھ لوگ رہتے ہیں لیکن 2013 کے بعد سے یہاں حکومت نے محاصرہ کیا ہوا ہے جس کے نتیجیمیں عام کھانے کی اشیا کو بہت زیادہ افراط زر کا سامنا ہے اور ایک ڈبل روٹی کے بیگ کی قیمت 5 ڈالر ( 551 پاکستانی روپی) کے برابر ہے۔

اس کے علاوہ غذائی قلت میں وہاں خطر ناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطے کے لیے قائم دفتر کے مطابق 5 سال تک کی عمر کے 11.9 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ صرف فروری میں ایک امدادی قافلے کو یہاں آنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن جنوری اور دسمبر میں اس طرح کی اجازت نہیں دی گئی۔مشرقی غوطہ میں جاری لڑائی اور بمباری سے متاثرہ ایک خاتون نسما البتری نے الجزیرہ کو بتایا کہ ہر روز بمباری سے ان کا گھر متاثر ہوتا ہے اور وہ شیلنگ کے دوران ایک کمرے میں ایک ساتھ مرنے یا زندہ رہنے کے لیے چھپ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی بیٹی روز اس بمباری سے ڈر کر ان سے گلے لگ کر پوچھتی ہے کہ وہ گھر سے باہر کیوں ہیں کھیل سکتی، وہ اسکول کیوں نہیں جاسکتی اور میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔شام کی شہری تحفظ کے رکن محمود آدم نے مشرقی غوطہ کی اصلیت بتاتے ہوئے اسے تباہ کن قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ شہریوں کے گھروں، اسکولوں، ہسپتالوں، بازاروں اور شہریوں کے تحفظ کے مقامات کو منصوبہ بندی سے نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس علاقے میں معاشرہ ایک مقتل گاہ بن چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ آیا ہم زندہ رہیں گے یا نہیں کیونکہ لگاتار راکٹ فائر ہوتے ہیں اور اتوار سے مشرقی غوطہ میں کبھی آسمان خالی نہیں دیکھا۔

متعلقہ عنوان :