کسی بھی معاملے پر بات کے لیے پارلیمان ہی سب سے بہترین فورم ہے‘ آئین سپریم ہے اور ہم سب اس کے تابع ہیں‘ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کوئی تصادم نہیں ہونے جارہا ،عدلیہ پر کوئی چیک ہے اور نہ ہونا چاہیے،عدلیہ آزاد ہے ہم نے ججز کے کنڈیکٹ پرنہیں بلکہ پارلیمنٹ کی حدود پر بات کی‘ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جمہوریت زیادہ عرصہ نہیں رہی‘ جمہوریت کے سفر کو پھر سے شروع کیا جاتا ہے اور پھر مسائل بنتے ہیں

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نجی ٹی وی چینل سے انٹرویو

جمعہ 23 فروری 2018 00:00

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 فروری2018ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہکسی بھی معاملے پر بات کے لیے پارلیمان ہی سب سے بہترین فورم ہے، آئین سپریم ہے اور ہم سب اس کے تابع ہیں‘ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کوئی تصادم نہیں ہونے جارہا، عدلیہ پر کوئی چیک ہے اور نہ ہونا چاہئے، عدلیہ آزاد ہے ہم نے ججز کے کنڈیکٹ پرنہیں بلکہ پارلیمنٹ کی حدود پر بات کی‘ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جمہوریت زیادہ عرصہ نہیں رہی‘ جمہوریت کے سفر کو پھر سے شروع کیا جاتا ہے اور پھر مسائل بنتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاملے پر بات کے لیے پارلیمان ہی سب سے بہترین فورم ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم نے ججز پر یا ان کے کنڈیکٹ پر کوئی بات نہیں کی بلکہ ہم نے تو یہ کہا کہ پارلیمنٹ کیا قانون بنا سکتی ہے یا نہیں اور اس کا دائرہ کار کہاں تک ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف پارلیمان کا ہی احتساب ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ اور باقی اداروں میں کوئی تصادم نہیں ہو رہا ،بس ایک ڈبیٹ ہونی چاہیئے اور عوام کو پتہ چلنا چاہیئے اور ساتھ میں عدلیہ کو بھی کہ پارلیمنٹ کیا کام کر رہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئین سپریم ہے اور ہم سب آئین کے تابع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک میں غیر یقینی کی صورت حال ہو گی تو کوئی بھی سرکاری آدمی صرف اس ڈر سے کام نہیں کرے گا اور یہ سب حکومت پر آئے گا تو اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف اور صرف ایک ادارہ ہے جس کا احتساب ہوتا ہے اور وہ ہے پارلیمنٹ،میں نے ایک بحث چھیڑ دی ہے اور اب ہاؤس کو فیصلہ کرنا ہے کہ اس کو کس طرح بہتر کرنا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ محمد نوازشریف کو صرف ایک اقامہ کی بنیاد پر نکالا گیا، بیٹے کی کمپنی سے صرف تنخواہ نہیں لی اور اپنے الیکشن فارمز میں درج نہیں کیا تو وہ نا اہل ہو گئے۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ضروری ہے کہ اس وقت ڈائیلاگ کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ مسائل پر بحث کرے اور اپنا موقف دے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت نے ہمیشہ عدلیہ کا احترام کیا ہے اس لیے جو فیصلہ بھی عدالت کرے گی اس پر عمل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ ہمیں فیصلوں پر تحفظات ضرور ہیں لیکن ہم ان پر عملدرآمد کر بھی رہے ہیں اور آگے بھی کریں گے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان کو سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں اگر وہ عدلیہ کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ پارلیمانِ میں آکے ڈیبیٹ میں حصہ لیں اور اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ محمد نوازشریف نے ایسی کوئی تقاریر کیں ہوں جو توہین عدالت میں آتی ہوں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایسی پارٹیوں نے بھی سینیٹ کے لیے امیدوار کھڑے کیے ہیں جن کا صوبائی اسمبلی میں ایک بھی ایم پی اے نہیں، ان کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ووٹ خرید کر سینیٹ میں آئیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسی جماعتیں جن کا کوئی بھی ایم پی اے نہیں اور انہوں نے سینیٹ کے لییے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہے اور وہ واضح ہے کہ وہ جماعتیں ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے ہی سینیٹ میں آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے امیدوار جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں انکا غلط راستوں سے سینیٹ میں آنا شرمندگی کا باعث ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم اخلاقی دبائو بھی ڈالیں گے اور قانونی راستہ بھی اپنائیں گے تاکہ ہارس ٹریڈنگ کا عمل ختم ہو اور ایسے لوگ سینیٹ میں نہ پہنچیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ قانون سازی کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ جو لوگ ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے آئیں ان کے خلاف یا تو قانونی چارہ جوئی کی جائے یا پھر اتنی لعن طعن کی جائے کہ وہ سینیٹ کی سیٹ چھوڑ دیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے اس وزیراعظم کی سیٹ پرآج 8 ماہ ہو گئے ہیں لیکن مجھے آج تک محمد نواز شریف کی ڈکٹیشن کا کوئی فون تک بھی نہیں آیا اور نہ ہی حکومتی معاملات میں انہوں نے کبھی کوئی مداخلت کی ہے۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کھلا چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یہ دور حکومت ختم ہونے کے بعد ساری پارٹیاں اور سابق وزرائے اعظم آئیں اور کارکردگی پر مناظرہ کر لیں میں اکیلا جواب دوں گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا نام واچ لسٹ میں ڈالنے کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں جو نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے، ہم نے دنیا کے سامنے اپنا موقف رکھا ہے اور امید ہے کہ اسے قبول بھی کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اقوام متحدہ میں بھی اپنا موقف اب یہ ان کا کام ہے کہ وہ ہمارے لیے کیا فیصلہ کرتے ہیں، دنیا ہمارے کام سے بخوبی واقف بھی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے جو کام ان 5 سالوں میں کیے ہیں وہ گزشتہ 15 سالوں کے ترقیاتی کاموں سے کہیں زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت عوامی فلاح و بہبود کے لیے دن رات کوشاں ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں فوجی دستے بھیجنے کے حوالے سے بہت غلط تاثر دیا گیا کیونکہ یہ دستے صرف ٹریننگ کے لیے وہاں جاتے ہیں اور پچھلی کئی دہائیوں سے جا رہے ہیں جو معمول کی بات ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئین سپریم ہے اور اگر آئین کے راستے میں کوئی رکاوٹ آتی ہے تو میرا یہ فرض ہے کہ میں اسے پارلیمان میں لیکر آئوں تاکہ اس پر بحث ہو اور تمام معاملات کے حل کے لیے پارلیمان ہی سب سے بہترین فورم بھی ہے۔