سندھ کو ملنے والا بلدیاتی نظا م آئین کے آرٹیکل 140Aسے براہ راست متصادم ہے،ڈاکٹرخالدمقبول صدیقی

لنگڑا لولا بلدیاتی نظام یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر ہی حل ہوسکیں،کنوینرایم کیوایم پاکستان ہم دس بارہ اسکیموں کے پیسے جمع کرکے اگر کچرا اٹھادیں تو یہ قانون کے مطابق درست اقدام نہیں ہوگا،میئر کراچی کراچی میںآج گٹربہہ رہے ہیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی سندھ حکومت کے ہی زیر انتظام ہیں،وسیم اختر

جمعرات 22 فروری 2018 22:51

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2018ء) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی کا اہم اجلاس کنونیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی زیر صدارت عارضی مرکز بہادر آباد پر منعقد ہوا،اجلاس کے بعد ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور میئر کراچی وسیم اخترنے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بریفنگ بھی دی، اس موقع پر کنوینر ایم کیوایم پاکستان ڈاکٹر خا لد مقبو ل صدیقی نے کہا کہ آج کی یہ بریفنگ ہم پر قرض تھی اورآج بلدیاتی اداروںنے ہمیںاپنی کارکردگی سے آگاہ کیاہے لیکن یہ بات واضح رہے کہ سندھ کو ملنے والا بلدیاتی نظا م آئین کی آرٹیکل 140Aسے براہ راست متصادم ہے، یہ لنگڑا لولا بلدیاتی نظام یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر ہی حل ہوسکیں،پاکستان کی خوشحالی اور سلامتی کے لئے ضروری ہیں کہ جو اختیارات وفاق سے صوبوںکومنتقل ہوئے اسی طرح صوبوں سے تحصیل ضلع اور ٹاؤن کو منتقل کیے جائیں۔

(جاری ہے)

آج کے اجلاس میں ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کارکنان کا ایک بڑا اجلا س بلا کر بلدیاتی صورتحال کے با رے میں ان کو اعتماد میں لیا جائے اور پھر عوام کو بھی ان معاملات سے آگاہ کیا جائے۔اس موقع پر وسیم اختر نے مزید کہا کہ ہم دس بارہ اسکیموں کے پیسے جمع کرکے اگر کچرا اٹھادیں تو یہ قانون کے مطابق درست اقدام نہیں ہوگا کیونکہ اس کیلئے ایک الگ سے بورڈ موجود ہیں جو سندھ حکومت کے زیر انتظام ہے ،شہر کا آج جو حال ہے کہ جا بجا گٹربہہ رہے ہیں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی سندھ حکومت کے ہی زیر انتظام ہیں اور ہمیں دو کروڑ روپے کی حد میں باندھ رکھا ہے لہذا اختیارات اور وسائل کی عدم موجودگی میں ہماری کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔

انہوں نے اجلاس کو اگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے پاس 2016اور2017کے مالی سال میں چار ارب روپے ترقیاتی بجٹ کی مد میں وصول ہوئے جن کیلئے ہم نے 469اسکیمیں متعارف کرائیں تھیں، اس میں سے ایک سو ستر کے لگ بھگ اسکیمیں ہمیں ایڈمنسٹریٹر کے دور کی ملی تھیں جو صرف کاغذ پر تھیں ہم نے ٹھیکیداروں کو پابند کرکے ان کا مو ں کو بھی مکمل کرایا، جبکہ مالی سال 2017اور 2018میں چار سو چالیس ترقیاتی اسکیموں کیلئے ہمیں پانچ ارب روپے وصول ہوئے جن میں سے 212اسکیمیں گذشتہ مالی سال کی بھی تھیں، اب تک ہم 245اسکیموں کو مکمل کرچکے ہیں ، لیکن بڑا مسئلہ محاصل کے حصول کا ہے اس ضمن میں میئر کراچی نے بتایا کہ بلدیہ عظمی کراچی کے زیر انتظام تیس محکمے کام کررہے ہیں، جو زبوں حالی کا شکار ہیں، خسارے و بدعنوانی کے باعث یہ ادارے ریونیو جمع کرنیکی صلاحیت نہیں رکھتے تھے لیکن ہم نے ایک سال میں ان اداروںکی تظہیر کا عمل مکمل کیا بلکہ ان میں اصلاحات بھی متعارف کرائیں، اب ہمارے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ بیس کروڑ روپے کا ماہانہ خسارہ ہے اس پس منظر میں میئر کراچی نے وزیر اعلیٰ سندھ سے مطالبہ کیا جہاں آپ بہت سے امور میں ہم نے تعاون کررہے ہیں وہیں ایک سال تک بلدیہ عظمیٰ کے خسارے کو پورا کردیں تو یہ ادارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے، وسیم اختر نے اپنی بریفنگ کے بارے میں ذرائع ابلاغ سے با ت کرتے ہوئے کہا کہ تیرہ ہزار ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں جو رقم ملتی ہے وہ بھی سالانہ اضافے کے بغیر ملتی ہے اور وہ خسارہ بھی ادارے پر مسلسل بو جھ بن رہا ہے۔