تعلیم و صحت اور کرپشن کے خاتمے کے شعبوں میں کئے گئے اقدامات کو اپنے میگا پراجیکٹ سمجھتے ہیں ،پرویزخٹک

ماضی کے حکمرانوں نے فروغ تعلیم کے نام پر قوم سے بھونڈہ مذاق کیا، انگریزی اور اُردو میڈیم سکولوں کے تحت قوم کو دو واضح اور متضاد طبقات میں تقسیم کیا گیاجو دراصل انگریز حکمرانوںکا چھوڑا ہوا ورثہ ہے تعلیم کے نام پر عمارات سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنائی گئیں ، معاشرے کے امیر طبقے سرمایہ داری میں آگے بڑھتے گئے اور غریب طبقہ دن بدن غربت میں ڈوبتاچلا گیا،وزیراعلی خیبرپختونخوا

جمعرات 22 فروری 2018 22:32

تعلیم و صحت اور کرپشن کے خاتمے کے شعبوں میں کئے گئے اقدامات کو اپنے ..
پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2018ء) وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے صوبے کی ترقی کیلئے مواصلات ،معیشت ، ماحولیات، سیاحت اورکھیلوں سمیت مختلف شعبوں میں کئی میگا منصوبے شروع اور مکمل کئے مگر ہم تعلیم و صحت اور کرپشن کے خاتمے کے شعبوں میں کئے گئے اقدامات کو اپنے میگا پراجیکٹ سمجھتے ہیں کیونکہ انہی کی بدولت قومیں ترقی کرتی ہیں۔

وہ پی سی ہوٹل پشاورمیں بہترین یونیورسٹی اساتذہ اورطلباء کو ایوارڈ دینے کی تقریب سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے ۔ اس موقع پر صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم مشتاق غنی اور سیکرٹری اعلیٰ تعلیم سید ظفر علی شاہ نے بھی خطاب کیا اور اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے ضمن میں کئے گئے اقدامات پر روشنی ڈالی ۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ نے کہاکہ ماضی کے حکمرانوں نے فروغ تعلیم کے نام پر قوم سے بھونڈہ مذاق کیاکیونکہ انگریزی اور اُردو میڈیم سکولوں کے تحت قوم کو دو واضح اور متضاد طبقات میں تقسیم کیا گیاجو دراصل انگریز حکمرانوںکا چھوڑا ہوا ورثہ ہے تعلیم کے نام پر عمارات سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنائی گئیں مگر ان میں سہولیات اور معیار نام کو بھی نہیں ملتے تھے اُلٹا اساتذہ میں سیاست بازی اور سکولوں سے غیر حاضری کے تباہ کن رجحان کی حوصلہ افزائی کی جس نے سرکاری تعلیمی اداروں میں رہے سہے معیار تعلیم کا جنازہ بھی نکال دیا ۔

انہوںنے کہاکہ جو معاشرے اپنے تعلیمی نظام پر توجہ نہیں دیتے تباہی اُن کا مقدر بن جاتی ہے ۔ہمارے کمزور طبقاتی تعلیمی نظام کا بدعنوان ٹولوں اور حکمرانوں نے غلط فائدہ اُٹھایا اور عوام کا بے دردی سے استحصال کیا گیا ۔ماضی میں اداروںکی تشکیل حکمرانوں کی ذاتی پسند و ناپسند پر کی گئی جس کے نتیجے میں معاشرہ سماجی برائیوں کا شکار ہو گیا۔

معاشرے کے امیر طبقے سرمایہ داری میں آگے بڑھتے گئے اور غریب طبقہ دن بدن غربت میں ڈوبتاچلا گیا۔ جن لوگوں میں خلوص تھا،جو وطن کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ انہیں جان بوجھ کر کمزور رکھا گیا۔ ان پر قومی وسائل کے دروازے بند کئے گئے ۔ سارا نظام اور تمام ادارے ایک خاص ٹولے کے مفادات کو تحفظ دینے پر لگا دیئے گئے۔ جس سے غریب اورامیر کے مابین فرق بڑھتا گیا۔

جن معاشروں میں انصاف کا ترازو یکساں نہیں ہوتا وہ معاشرے اپنا وجود کھو دیتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ تعلیم اور قابلیت کی ناقدری کی وجہ سے ہمارے گنے چنے تعلیم یافتہ نوجوان بیرون ملک چلے گئے اور برین ڈرین کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔پرویز خٹک نے کہاکہ ہماری حکومت نے یکساں نظام تعلیم کے ذریعے امیر و غریب کو تعلیم اور ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کی بنیاد فراہم کردی ہے۔

ہم امیرا ورغریب کے درمیان آزادی کے بعد سے جاری اس فرق کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم سرکاری تعلیمی اداروںکے معیار کو پرائیوٹ اداروں کے برابر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ شروع میں انہوں نے بعض تعلیمی اداروں ، ہسپتالوں اور تھانوں کے اچانک دورے کئے تو اُنہیں محسوس ہوا کہ ان اداروں میں بنیادی سہولیات ہی ناپید ہیں تو ذمہ داران سے پوچھ گچھ کا کوئی فائدہ نہیں۔

پہلے ان کی ضروریات کی تکمیل ہونی چاہیئے اور پھر احتساب مگر یہ احتساب اور نگرانی کا عمل بھی باقاعدہ نظام کے تحت متعلقہ حکام کی طرف سے ہو نہ کہ وزیراعلیٰ وہاں کے دورے کرکے صرف سستی شہرت حاصل کرے ۔ہم ایک ایسا نظام تعلیم دینا چاہتے ہیں جو ایسی افرادی قوت تیار کرے جو ملک وقوم کی ترقی کی ضامن بنے۔ جو اندرونی و بیرونی دشمنوں کی سازش کا مردانہ وار مقابلہ کر سکے۔

یہی ہمارا منشور اور ہمارا وژن ہے ۔انہوںنے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے شروع دن سے تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنایا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دیر پا تبدیلی کیلئے بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر توجہ اور سہولیات میں اضافہ انتہائی ضروری ہے ۔اسی مقصد کے تحت ابتدائی و ثانوی تعلیم میں بہتری کیلئے لا تعداد اصلاحات اور اقدامات کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے فروغ پر بھی بھر پور توجہ دی گئی ۔

صوبے میں 10 نئی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں صوابی اور مردان میں دو نئی خواتین یونیورسٹیوں کا قیام شامل ہے ۔ اسی طرح نئے بجٹ میں یونیورسٹیوں کو کارکردگی کی بنیاد پر پرفارمنس گرانٹ میں ایک ارب روپے اضافی دیئے گئے ۔سرکاری کالجز میں بی ایس چار سالہ ڈگری پروگرام متعارف کیا گیا جس کا مقصد کم مراعات یافتہ طبقے کو اعلیٰ تعلیمی سہولیات پہنچانا اور تعلیم کا اعلیٰ معیار یقینی بنانا ہے۔

میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنانے کے ضمن میں وائس چانسلر کے انتخاب کیلئے ڈاکٹر عطاء الرحمن کی سربراہی میں اکیڈمک سرچ کمیٹی بنائی گئی جس کی سفارش پر صوبائی حکومت نے گزشتہ دو سالوں میں 16 وائس چانسلرز کا تقرر کیا۔اسی طرح صوبے میںیونیورسٹیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے یونیورسٹی ماڈل ایکٹ لایا گیا جس سے یونیورسٹیوں کا انتظام شفافیت کے ساتھ چلانا ممکن بنا۔

یونیورسٹیوں کے علاوہ کالجز کے معیار پر بھی بھر پور توجہ دی گئی اور ان کی کارکردگی بہتربنانے کیلئے جامع پروگرام بنایا گیا جس میں نتائج کی بنیاد پراساتذہ کیلئے سکالر شپ ، ریسرچ گرانٹس اور دیگر مراعات میں اضافہ شامل ہے۔انہوںنے کہاکہ الف اعلان کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان کے ٹاپ ٹین سکولوں میں 9 کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے حالانکہ چار سال پہلے کے سروے میں ہمارا کوئی سکول شامل نہیں تھا ۔

ہم فروغ تعلیم اور تربیت یافتہ افرادی قوت بالخصوص تعلیم و ہنرسے آراستہ نوجوان نسل کی تیاری پر یقین رکھتے ہیں۔ایک تعلیم یافتہ نوجوا ن برسرروزگار ہو یا اُن کا اپنا کاروبار ہو وہی دراصل خوشحال مستقبل کی نوید بن جاتا ہے۔ایسا نوجوان انتہا پسندی کی منفی سوچ سے آزاد ،با صلاحیت اور مفید شہری بن جاتا ہے۔وہ پورے معاشرے کے لئے اُمید کی کرن اور ملک وقوم کی ترقی کا ضامن بن جاتا ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہمیں پاکستان کے مستقبل کا سوچنا ہے ۔ خیبرپختونخو امیں ہمیں تعلیم کے فروغ اور اعلیٰ معیارکے لئے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔اُنہیں یقین ہے کہ ہمارے اساتذہ ماہر تعلیم اپنی شبانہ روز مشترکہ محنت کی بدولت تعلیم کے شعبے میںہماری اصلاحات اور اقدامات کو عملی شکل دیں گے ۔انہوںنے کہاکہ اساتذہ نوجوان نسل کے والدین کا درجہ رکھتے ہیں اور اُن کی صحیح تعلیم و تربیت یقینی بنا کر جنتی بن سکتے ہیں۔اس موقع پر وزیراعلیٰ نے محکمہ اعلیٰ تعلیم کے زیر اہتمام بہترین یونیورسٹی اساتذہ، طلباء و طالبات اور ریٹائرڈ پرنسپلز میں ایوارڈ تقسیم کئے۔