محدود وسائل کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل ہوئیں، پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دیا جا رہا ہے، وفاقی پولیس کو تمام دیگر صوبوں کے لئے مثالی بنانے کے لئے کوشاں ہیں

دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہماری مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز کا کردار دنیا کے کے لئے مثال ہے وزیر داخلہ احسن اقبال کا ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب

جمعرات 22 فروری 2018 16:20

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 فروری2018ء) وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ محدود وسائل کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل ہوئیں، 2013ء میں ہم جہاں کھڑے تھے پاکستان کو دنیا کا خطر ناک ترین ملک قرار دیا جارہا تھا، 2018ء میں آج کوئی ایسا نہیں کہہ سکتا، پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دیا جا رہا ہے، پولیس کا نہ صرف امن و امان بلکہ ملکی ترقی میں ایک کلیدی کردار ہے جہاں امن و استحکام نہیں ہو گا وہاں ترقی ممکن نہیں ہوسکتی، پولیس نظام میں اصلاحات ایک بتدریج عمل ہے، جس کے لئے وفاقی پولیس کو تمام دیگر صوبوں کے لئے مثالی بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو یہاں ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام وفاقی دارالحکومت اور صوبوں کے پولیس نظام میں فرق کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

وزیر داخلہ نے کہاکہ ایس ڈی پی آئی نے جس موضوع کاانتخاب کیا ہے وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پولیس کا نظام ترقی کے عمل کو وژن فراہم کرتا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی اور ایسے عوامل جہاں لوگوں کو بد امنی پر اکسایا جارہا تھا جیسے چیلنجز کا مقابلہ کیا جس کے لئے افواج پاکستان، سول آرمڈ فورسز اور پولیس کی قربانیاں قابل تحسین ہیں۔ پولیس نے ہمیشہ امن و امان کے قیام اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے صف اول کا کردار ادا کیا۔ پولیس وہ ادارہ ہے جو معاشرے میں سرایت کر سکتا ہے اس لئے معاشرے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے کے لئے پولیس نظام کو بہتر اور ماڈل خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے جس پر وفاقی حکومت اپنا کردار ادا کررہی ہے۔

وزیر داخلہ نے کہاکہ کم وسائل کے باوجود ہمارے جوانوں کی قربانیاں اور ملک میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری لانا قابل تحسن عمل ہے جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہماری مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز کا کردار دنیا کے کسی بھی ملک کے لئے ایک مثال ہے۔

انہوں نے کہاکہ 1997ء سے 1999ء کے عرصہ میں گڈ گورننس کے ذریعے اصلاحات نافذ کرنے کے لئے بہت ساراکام کیا ۔ گڈ گورننس کمیٹی نے 80 فیصد اتفاق رائے سے اصلاحات اور سفارشات مرتب کیں جبکہ 20 فیصد کام کے لئے اصلاحات ضروری تھیں لیکن بد قسمتی سے جمہوری عمل برقرار نہ رہا اور اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کہاکہ معاشرے میں استحکام ہو تو اصلاحات ممکن ہیں۔

ہچکولے کھاتے نظام میں اصلاحات نہیں ہو سکتیں۔ اصلاحات کے لئے غیر معمولی فیصلے کرنے ہوتے ہیں لیکن یہاں فیصلوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جس پر راتوں رات عملدرآمد نہیں کرا یاجاسکتا بلکہ یہ ایک بتدریج عمل ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں انداز بدلنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں استحکام کو مستقبل کے لئے ناگزیر حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا ہو گا۔ بصورت دیگر سفارشات کاغذات کی حد تک محدود رہ جاتی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ چین کی آج دنیا پردھونس اقتصادی کامیابی کی وجہ سے ہے جبکہ شمالی کوریاکی دھونس اس کے ہتھیار ہیں ۔ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے دنیا پر اپنی دھونس معیشت کے اعتبار سے فروغ دینی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ماڈل پولیس بنانے کے لئے متعدد اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ 2 سال پہلے اسلام آباد پولیس کو ماڈل پولیس سٹیشن بنانے کا ٹاسک دیا ۔

آئی جی اسلام آباد اب اسے حقیقت کاروپ دینے کے لئے تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ اسلام آباد نے اگلے تین اور چارماہ کے دوران تھانوں کو ماڈل پولیس سٹیشن اور ٹیکنالوجی سے آراستہ پولیس نظام میں تبدیل کیاجائے گا۔ اسلام آباد پولیس ٹیکنالوجی لیڈر پولیس ہے کیونکہ یہاں سیف سٹی پراجیکٹ موجود ہے۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ اینٹی رائیڈ پولیس یونٹ تشکیل دیا گیا ہے جو انفراسٹرکچر، تربیت اور ہتھیا روں سے لیس ہے ۔

کائونٹر ٹیریرازم پولیس کے 500 جوان تعینات ہو چکے ہیں جبکہ مزید تعیناتی کاعمل جاری ہے۔ تھانوں میں کارکردگی کی بنیاد پر انعام اور غفلت کی بنیاد پر سزا کا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے اور تربیت پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ باربار اس عمل کو حصہ بنایا جارہاہے ۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ بیجنگ پولیس کے ایک مفاہتمی یادداشت پردستخط کرنے جا رہے ہیں جبکہ برطانیہ کی میٹروپولیٹس لندن پولیس کے ساتھ بھی تعاون کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ ان کے تجربات سے بھی بھر پور استفادہ کیا جاسکے۔

تمام ایس ایچ اوز کو کمیونٹی لیڈر بنانے کا پروگرام دے رہے ہیں ۔ یقین دلاتا ہوں کہ اس ضمن میں جو بھی مثبت تجاویز آئیں گی تواس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ شہریوں کو تحفظ کااحساس دلانے کے ساتھ معاشرے میں خوشحالی آئے گی اور پولیس کا وقار بلند ہو گا۔ اسلام آباد پولیس کی اس ضمن میں تربیت کررہے ہیں کہ کمزور طبقے کی قوت بنے اور طاقتور کے لئے استعمال نہ ہو۔

قبل ازیں سابق انسپکٹر جنرل پولیس نے پولیس نظام میں اصلاحات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی اورقیام پاکستان سے لے کر مختلف ادوار میں ہونے والی تبدیلیوں سے شرکاء کو آگاہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ 1861ء کے فرسودہ نظام سے چھٹکارے کے لئے ہم نے 2002ء میں کوشش کی تاکہ اس پالیسی نظام میں اصلاحات لائی جا سکیں لیکن 2010ء میں 18ویں ترمیم کے بعد یہ کام رک گیا۔

انہوں نے کہاکہ آج ملک میں ایک جیسے پولیس قوانین کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ سندھ ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ نے اس ضمن میں اقدامات اٹھائے ہیں۔ دیگر صوبوں وفاق ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی اسی طرح کی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ سیمینار سے سابق وزیر داخلہ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہاکہ لوکل گورنمنٹ اور پولیس دو ایسے ادارے ہیں جو عوام کو بنیادی حقوق اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

2002ء کا قانون ماضی کی تمام سفارشات کو مد نظر رکھتے ہوئے مرتب کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ وزارت داخلہ کو اس حوالے سے بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ ایس ڈی آئی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے خطبہ استقبالیہ دیا اور پولیس اصلاحت پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے ملک میں اصلاحات کے نفاذ کے حوالے سے مذاکرے کااہتمام کیا۔ تقریب سے غیرسرکاری تنظیم کی رہنما حمیرا ، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عارف چوہدری اور ڈاکٹر صفدر سہیل نے بھی خطاب کیا۔