میرا نام نوازشریف ، اسے بھی کوئی شق ڈھونڈھ کر مجھ سے چھین لو ، سابق وزیراعظم

پارٹی صدارت سے نااہلی کا عدالتی فیصلہ غیر متوقع نہیں، یہ فیصلے غصے اور بغض میں دیئے جارہے ہیں،ایگزیکٹو کے بعد پارلیمنٹ کا اختیار بھی چھین لیا گیا ہے،پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں کہ اقامے پر ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل کردو‘ سپریم کورٹ کے سارے فیصلے نواز شریف کی ذات کے گرد گھوم رہے ہیں نوازشریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو

جمعرات 22 فروری 2018 15:39

میرا نام نوازشریف ، اسے بھی کوئی شق ڈھونڈھ کر مجھ سے چھین لو ، سابق وزیراعظم
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 فروری2018ء) سابق وزیراعظم نواز شریف نے گذشتہ روز سپریم کورٹ کی جانب سے مسلم لیگ (ن)کی صدارت سے نااہل قرار دیئے جانے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلے غصے اور بغض میں دیئے جارہے ہیں، ایگزیکٹو کے بعد پارلیمنٹ کا اختیار بھی چھین لیا گیا ہے‘ اب آئین کی کوئی شق ڈھونڈھ کر میرا نام نواز شریف بھی مجھ سے چھین لو‘ پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں کہ اقامے پر ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل کردو‘ سپریم کورٹ کے سارے فیصلے نواز شریف کی ذات کے گرد گھوم رہے ہیں‘ عدالتی فیصلوں میں غصہ اور انتقام نظر آرہا ہے۔

جمعرات کو احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہاکہ یہ کوئی غیر متوقع فیصلہ نہیں ہے، پہلے انھوں نے ایگزیکیٹو حکومت کو مفلوج کردیا اور اب اس فیصلے نے مقننہ (پارلیمنٹ)کا اختیار بھی چھین لیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا '28 جولائی کو میری وزارت چھین لی گئی اور کل کے فیصلے سے مجھ سے مسلم لیگ(ن)کی وزارت چھین لی گئی، میرا نام محمد نواز شریف ہے، آئین میں کوئی شق ڈھونڈیں، جس کی مدد سے مجھ سے میرا نام محمد نواز شریف بھی چھین لیں'۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں کوئی قانون نہیں کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزیراعظم کو نکال دو، 28 جولائی کے فیصلے میں بلیک لا ڈکشنری استعمال کی گئی تھی، کل جو فیصلہ ہوا ہے، اس کی بنیاد بھی وہی فیصلہ ہے کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے اور اقامہ کی بنیاد پر نااہل کردیا گیا۔ نواز شریف نے کہا کہ اب یہ مزید غوروخوض کر رہے ہیں کہ نواز شریف کو زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دے دیں۔

نواز شریف نے کہا، کل یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا قانون ایک شخصیت کے لیے تھا، یہ قانون بھٹو نے بھی بنایا تھا، جسے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے ختم کیا اور بعد میں 2014 میں اسے سب پارٹیوں نے مل کر بنایا، یہ قانون کسی کی ذات کے لیے کیسے ہوسکتا ہی سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے یکے بعد دیگرے آنے والے فیصلے نواز شریف کے لیے ہیں، جو نواز شریف کی ذات کے گرد گھومتے ہیں، یہ غصے اور بغض میں دیئے جارہے ہیں۔