سانحہ کنن پوشپورہ کی27سال مکمل، متاثرہ خواتین کی خاموش داستان کی چیخیں آج بھی درودیوار سے ٹکرا رہی ہیں، انصاف کی متلاشی خواتین کی جدوجہد دوسری نسل کو منتقل

جمعرات 22 فروری 2018 11:30

سرینگر۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 فروری2018ء)مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے علاقے کنن پوش پورہ میں27برس قبل بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اجتماعی بے حرمتی کا نشانہ بننے والی خواتین کی چیخیں آج تک خاموش نہیں ہوئیں ہیں۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق کنن اورپوش پورہ میں 27سال قبل اجتماعی جنسی تشدد کی چیخیں اور آہ و فغان آج تک خاموش نہیں ہوئی ہیں بلکہ اس سانحہ سے متاثرہ خواتین کیلئے آج بھی 23 فروری 1991ء کا وہ دن کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔

متاثرہ خواتین کو آج بھی اٴْن لمحات کی یاد آتی ہے تو ان کے رونگٹے کھڑے اور خشک آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ 27 برس گزرنے کے باوجود ابھی تک درجنوں خواتین انصاف کے حصول کی منتظر ہیں ۔لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش ہیں۔

(جاری ہے)

تاریخ کے اس بدترین سانحہ نے جہاں حصول انصاف کے اداروں پر سوالیہ نشان لگا دیا،وہیں بھارت نواز سیاست دانوں کو بھی کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس سانحے کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ سرینگر سے لیکر نئی دلی تک بھارتی خفیہ ایجنسیوں اور سیاسی جماعتوں نے کبھی بھی اس پر شرمساری کا اظہار نہیں کیا۔2013 ء میں اس وقت کے بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید نے سرینگر کے دورے کے دوران کنن پوشہ پورہ میں پیش آئے واقعے پر کہا تھا’’ میں کیا کہوں میں صرف یہ کہہ سکتا ہو ںکہ میں اس پر شرمسار ہوںکہ یہ سانحہ میرے ملک میں پیش آیا، میں معذرت خواہ اور حیران ہو ںکہ یہ میرے ملک میں کیوں پیش آیا‘‘۔

سلمان خورشید پہلے بھارتی وزیر تھے، جنہوں نے اجتماعی عصمت دری کے اس واقعے کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ معافی بھی طلب کی تھی۔2015میں کئی طالبات نے اس کیس کو اس وقت نئی جلا دی جب انہوں نے کشمیر ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کے تحت ایک اپیل دائر کرکے کیس کی ازسر نو تحقیقات کامطالبہ کیا اور بعد ازاں انہوںنے سپریم کورٹ کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا ۔

اس حوالے سے چند کشمیری طالبات کی تحریر کردہ کتاب ’کیا آپ کو کنن پوش پورہ یاد ہے ‘ 2016 ء میںمنظر عام پر آئی ۔ خاموش داستان کو الفاظ دینے والی رضاکارکشمیری طالبات کا کہنا ہے کہ قابض کے پاس غلام کوزیر کرنے کیلئے ڈر واحد ہتھیار ہوتا ہے تاہم انہوںنے اس خوف کو زیر کر کے یہ پیغام دیا کہ اب ان کے ڈرنے کی باری ہے۔27جون 2016 ء کوسانحہ کنن پوشپورہ کی تحقیقات بند کرانے کیلئے بھارتی فوج نے وزارت دفاع کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیاتھا۔

بھارتی وزارت دفاع نے عدالت عظمیٰ میں کو بتایا کہ اصل میں کنن پوش پور ہ کپوارہ میں ہوئی عصمت دری کو فوج کو بدنام کرنے کی کوشش ہے اور یہ سراسر پروپگنڈا ہے۔ سانحہ کنن پوشہ پورہ کے متاثرین 27 برس بعد بھی انصاف کے حصول کے منتظر ہیں ۔ایک متاثرہ خاتون نے میڈیا کو بتایا کہ انتخابات کے دوران کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے وعدہ کیا تھاکہ کنن پوشہ پورہ کے متاثرین کو انصاف فرہم کیا جائے گا، تاہم وہ اپنا وعدہ فراموش کر چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہیں محبوبہ مفتی سے یہ امید نہیں تھی،کیونکہ وہ خود ایک خاتون ہیں اوران کا درد سمجھ سکتی ہیں۔ ایک اور متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں صرف عزت اور انصاف چاہے۔انہوں نے کہاکہ بھارتی حکومت دانستہ طور پر تاخیر کررہی ہے تاکہ سانحے کی تمام متاثرہ خواتین اورچشم دید گواہ ایک ایک کر کے مر جائیں اور اس کیس کو آگے لے جانے والا کوئی نہیں ہو، تاہم یہ نسل میں منتقل ہوچکا ہے۔

کنن پوشہ پورہ کے ایک شہری نے بتایا کہ دسمبر2016میں متاثرین نے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی تھی اور انہیں درخواست پیش کر کے اپنا وعدہ یاد دلایا تھا،تاہم ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ 22 اور 23 فروری 1991ء کی درمیانی شب بھارتی فوج کی4 را جپوتانہ رائفلزکے اہلکاروں نے گائوں کی سو کے قریب خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی تھی ۔