سعودی ماوں کی اولاد کو غیر ملکیوں کے زمرے میں رکھا جارہا ہے

Sadia Abbas سعدیہ عباس منگل 20 فروری 2018 18:02

سعودی ماوں کی اولاد کو غیر ملکیوں کے زمرے میں رکھا جارہا ہے
جدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 فروری2018ء)   مقامی ذرائع المکہ نیوز کے مطابق برسہا برس سے جاری بحث کے بعد سعودی مجلس شوریٰ نے 22صفر 1374ھ کو شاہی فرمان پر جاری شدہ قانون شہریت میں ترامیم کی 2تجویزوں پر غوروخوض کا فیصلہ کرلیا۔ یہ تجاویز مجلس شوریٰ کے قانون کی دفعہ 23کے مطابق شوریٰ کے موجودہ اور قدیم ارکان نے پیش کی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے سعودی خواتین مشکلات سے دوچار ہیں۔

انکے سر کے بال سفید ہوچکے ہیں۔انکی اولاد کو غیر ملکیوں کے زمرے میں رکھا جارہا ہے۔ سعودی مرد وں کی اولاد کو پیدائش کے فوراً بعد سعودی شہریت دی جارہی ہے۔ ایسا کرکے مرد اور عورت دونوں میں کافی امتیاز برتا جارہا ہے۔ یہ اعتراف واجب ہے کہ سعودی حکومت ، سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد کو تعلیم کا حق دیئے ہوئے ہے۔

(جاری ہے)

مسئلہ یہ ہے کہ جب انکی اولاد جامعات سے فارغ ہوتی ہے تو انکے ساتھ غیر ملکی کارکنان والا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

انہیں اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ انہیں ہر حال میں غیر ملکی شمار کیا جاتا ہے۔ اس سے انکی ملازمت کے مسائل دوچند ہورہے ہیں۔ یہ اپنی ماں پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ انکے پاس اےسی فیلڈ میں تعلیم کی ڈگریاں ہیں جن کی ملک کو ضرورت ہے مگر ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے یہ سعودی ماں پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ سعودی ماں ہی انکے اخراجات برداشت کرتی ہے کیونکہ انہیں غیر ملکی سمجھا جارہا ہے۔

اگر وہ سفر کرتے ہیں تب ان کے ساتھ غیر ملکیوں والا برتاﺅ کیا جاتا ہے۔ رہنے کیلئے اقاموں کی تجدید بھی کرانا پڑتی ہے۔ مذکورہ تصرفات کے باعث سعودی عرب سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد سے محروم ہوجائیگا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یہیں پیدا ہوئے ۔ یہیں کی فضاﺅں میں سانس لیتے رہے۔ مملکت ہی کے سماجی نظام کا حصہ ہیں۔ انکی محبت، انکی وابستگی مملکت کیلئے ہے۔

بسا اوقات انہیں اپنے باپ کے ملک کی بابت کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا۔ اگر کبھی کبھار یہ اپنے باپ کے وطن چلے بھی گئے تو وہاں یہ زندگی نہیں گزار پائے ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے رشتہ دار اور اپنے دوست احباب کے حوالے سے ماں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ماں کے جو رشتہ دار اور ملنے والے ہیں انہی کو یہ اپنی کل حیات سمجھتے ہیں۔ اگر اس حقیقت کو مد نظر رکھیں کہ ساڑھے 7لاکھ سے زیادہ سعودی خواتین غیر ملکیوں سے شادیاں کئے ہوئے ہیں اور یہ تعداد روز افزوں ہے۔

اگر یہ امر بھی پیش نظررکھیں کہ غیر ملکیوں سے سعودی خواتین کی 90فیصد کے لگ بھگ شادیاں کامیاب ہیں۔ عرب نیوز کی رپورٹ میں یہی دعویٰ کیا گیا ہے۔ کامیابی کا سبب یہ ہے کہ سعودی خاتون اور غیر ملکی شوہر کا رشتہ زوجیت مستحکم رہتا ہے۔ طلاق اور ایک سے زیادہ شادیوں کی آفت نہیں ہوتی۔ اسی کے ساتھ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو سعودی خاتون غیر ملکی سے شادی کرلیتی ہے، وہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ اسکا فیصلہ درست تھا تاہم اس حقیقت کے اعتراف میں بھی کوئی بات نہیں کہ بعض واقعات ایسے بھی ہیں کہ غیر ملکی سے سعودی خاتون کی شادی ناکامی سے دوچار ہوئی۔

غیر ملکی شوہر نے اولاد کے نقطے کو لیکر اپنی سعودی بیوی کے استحصال کی کوشش کی اور اسے مالی ، سماجی اور معنوی نقصانات پہنچائے۔ قانون شہریت میں ترامیم کی تجویز پیش کرنے والے ارکان شوریٰ شکریہ کے مستحق ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ اگر سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد کو سعودی شہریت دی گئی تو اس سے وطن عزیز کو مخلص ، اہل افرادی قوت حاصل ہوگی۔

دفعہ 7میں ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ ”سعودی ہر و ہ شخص ہوگا جو مملکت یا اسکے باہر سعودی باپ یا سعودی ماں سے پیدا ہوا ہو یا نامعلوم ماں باپ کی اولاد ہو، مملکت میں پیدا ہوئی ہو،مملکت میں لاوارث نومولودسعودی شمار کیا جاتا ہے“۔ ترمیم کے بعد مذکورہ دفعہ سماجی انصا ف کی آئینہ دار بن گئی ہے۔ اس سے معاشرے اور اسکے امن کو نقصان پہنچانےوالے پہلوﺅں کا بھی تدارک ہورہا ہے۔

مجلس شوریٰ میں جن لوگوں نے ترامیم کے خلاف ووٹ دیا اور انہوں نے اسکا جو جواز پیش کیا وہ عجیب و غریب بھی ہے اور مضحکہ خیز بھی۔ وہ لوگ یہ بھول گئے کہ امریکہ جس کی آبادی 300 ملین نفوس پر مشتمل ہے وہ اپنے یہاں پیدا ہونے والے ہر بچے کو امریکہ کی شہریت دیدیتا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک جن میں عرب اور مسلم ممالک بھی شامل ہیں ایسا ہی کررہے ہیں۔

قانون شہریت میں ترمیم سے سعودی ماﺅں کی غیر ملکی اولاد کو مکمل حق شہریت مل جائیگا۔ وہ ان تمام سہولتوں سے استفادہ کرسکیں گے جو سعودیوں کو حاصل ہیں۔ماں کی وفات کی صورت میں ان سہولتوں سے محرومیوں سے بھی دوچار نہیں ہونگے۔ اسکی بدولت معاشرہ انحطاط او رانتشا رسے بچ جائیگا۔ نسلی، قبائلی، مسلکی اور فرقہ وارانہ تفرقوں سے بھی نجات حاصل ہوگی اور ایک قومی اتحاد و سالمیت کا اٹوٹ حصہ ہوگا۔

متعلقہ عنوان :