پی آئی اے کے نجکاری کے قانون کے تحت 51 فیصد حصص اور مینجمنٹ حکومت کے پاس رہے گی ،ْدانیال عزیز کا قومی اسمبلی میں بیان

ملازمین کو ملازمتوں سے نہیں نکالا جائے گا اور نہ ہی اس کے اثاثہ جات فروخت کئے جائیں گے ،ْ اظہار خیال زنیب کیس ،ْ اینکر کے پروگرام پر بنائی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ 28 فروری تک سپریم کورٹ میں پیش کی جائے گی ،ْ طلال چوہدری

منگل 20 فروری 2018 17:55

پی آئی اے کے نجکاری کے قانون کے تحت 51 فیصد حصص اور مینجمنٹ حکومت کے ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 فروری2018ء) وفاقی وزیر وزیر نجکاری دانیال عزیز نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ پی آئی اے کے نجکاری کے قانون کے تحت 51 فیصد حصص اور مینجمنٹ حکومت کے پاس رہے گی، ملازمین کو ملازمتوں سے نہیں نکالا جائے گا اور نہ ہی اس کے اثاثہ جات فروخت کئے جائیں گے۔ منگل کو قومی اسمبلی میں سید نوید قمر اور دیگر کے وزیراعظم کی جانب سے منظور کردہ قومی ایئر لائن (پی آئی ای) کی مجوزہ نجکاری سے متعلق توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں وزیر نجکاری دانیال عزیز نے بتایا کہ قومی ایئر لائن کی مجوزہ نجکاری کی وزیراعظم نے منظوری نہیں دی، یہ ٹرانزیکشن کی منظوری ہوئی ہے، نجکاری پالیسی پارلیمنٹ کی منظور کردہ ہے، نجکاری کے قانون میں حکومت اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی رائے شامل ہے جس کے مطابق 51 فیصد حصص حکومت کے پاس رکھنے کی شق دی گئی ہے، یہ ادارے حکومت کے پاس رہیں گے، ایئر ٹرانسپورٹ بزنس علیحدہ ہو جائے گا، اسمبلی نے دو سال کا ٹرانزیکشن بیریئر دیا تھا جو اپریل 2018 میں مکمل ہو رہا ہے، اس عمل سے یہاں ملازمین کو فرق نہیں پڑے گا، یہ قانون پارلیمنٹ کا بنایا گیا ہے، مجھ پر کبھی کرپشن کا الزام نہیں لگا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کب کمیٹی میں یہ معاملہ لانا ہے، میں حاضر ہوں، یہ بات درست نہیں کہ کسے چہیتے کو دیا جا رہا ہے یا چھ ماہ حکومت کے رہ گئے ہیں، پاکستان کو پی آئی اے سے 15 کروڑ روپے روزانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ نوید قمر نے کہا کہ حکومت کے پاس تین ماہ رہ گئے ہیں، نجکاری کے حوالے سے قانون یہ ہے کہ 51 فیصد حصص اور مینجمنٹ حکومت کے پاس رہے گی، اس بارے میں وضاحت کریں۔

دانیال عزیز نے بتایا کہ قانون کے مطابق 51 فیصد سے زائد حصص نہیں بیچ سکتے، نہ ایسی کوئی منظوری ہوئی ہے، اس قانون پر عملدرآمد کر رہے ہیں اس میں ترمیم نہیں کر سکتے، یہ قانون دو سال کے لئے تھا ارو اپریل 2015ء میں بنا تھا، اس کے حصص ہی فروخت ہونا ہیں، ملازمین کو بھی نہیں ہٹایا جا رہا، اس کو اونے پونے داموں نہیں دیا جا رہا، اس کی ریزور قیمت لگائی جائے گی، اس معاملہ کو خواہ مخوا سیاسی ایشو نہ بنایا جائے،وضاحت دینے کے لئے میں ہر جگہ حاضر ہوں ۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت کا کام بٹا ہوا ہے، نجکاری فہرست میں 68 اثاثے ہیں، ہر حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اداروں کو بہتری کی طرف لے کر جائیں، مشترکہ مفادات کونسل میں اس کی منظوری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی پاکستان یا ملازمین کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا، نجکاری بورڈ کی ایلویشن کمیٹی بنائی جاتی ہے۔ اجلاس میں میاں عبدالمنان اور دیگر کے زینب قتل کیس میں مشکوک بینک اکائونٹس اور ایک وفاقی وزیر کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے بارے میں ایک ٹی وی اینکر کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کرنے کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل کردہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش نہ کرنے سے متعلق توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ محمد طلال چوہدری نے بتایا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک پروگرام کیا، سپریم کورٹ میں بہت سے اکائونٹس ہونے کی بات کی اس پر ان سے سپریم کورٹ نے جواب مانگا اور، ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں تین رکنی جے آئی ٹی بنائی گئی ہے، اس کو 28 جنوری کو 30 دن دیئے گئے ہیں کہ وہ اس پر تحقیقات کریں، یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور اس کی تحقیقات بھی جاری ہیں، جے آئی ٹی کے سربراہ نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ مقررہ وقت میں یہ کام مکمل ہوگا، جو مینڈیٹ اس کمیٹی کو دیا گیا ہے اس کے مطابق کام ہو رہا ہے اور 30 دن بعد یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ آنے پر کورٹ ہی فیصلہ کرے گی۔