سعودی خواتین کو عبایہ پہننے کی ضرورت نہیں: سعودی عالم

Sadia Abbas سعدیہ عباس منگل 20 فروری 2018 17:10

سعودی خواتین کو عبایہ پہننے کی ضرورت نہیں: سعودی عالم
ریاض (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 فروری2018ء) بی بی اردو کے مطابق سعودی عرب کے ایک مذہبی عالم نے کہا ہے کہ سعودی خواتین کو عوامی مقامات پر عبایہ پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔ سعودی عرب کی کونسل آف سینئیر سکالرز کے رکن شیخ عبداللہ الا مطلق نے کہا کہ خواتین کو اعتدال والے لباس پہننے چاہییں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عبایہ پہنیں۔ خیال رہے کہ سعودی خواتین کے لیے قانونی طور پر عبایہ پہننا لازم ہے۔

سعودی مذہبی عالم کی جانب سے یہ مداخلت اس وقت سامنے آئی ہے جب ملکی معاشرے کو جدت دینے کے لیے خواتین پر عائد کچھ پابندیوں کو نرم کیا گیا ہے۔ شیخ مطلق نے جمعے کو کہا: ’دنیا کی 90 فیصد سے زیادہ نیک مسلمان خواتین عبایہ نہیں پہنتی ہیں چنانچہ ہمیں لوگوں کو عبایہ پہننے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔

(جاری ہے)

‘ خیال رہے کہ سعودی عرب کے کسی سینئیر مذہبی عالم کی جانب سے پہلی بار ایسا بیان سامنے آیا ہے۔

شیخ مطلق کی مداخلت کے بعد انٹرنیٹ پر سعودیوں نے اس پر شدید ردِ عمل دیا ہے۔ کچھ افراد نے اس کی حمایت جبکہ کچھ نے مخالفت کی ہے۔ ایک ٹوئٹر صارف مشاری غامدی نے لکھا ’عبایہ کا استعمال ہمارے خطے کی روایات میں سے ایک کا معاملہ ہے اور یہ سب پر لاگو کیا گیا ہے۔ یہ مذہب کا مسئلہ نہیں ہے۔‘ ٹوئٹر صارف Kooshe90 @ نے اس بارے میں لکھا: ’یہاں تک کہ اگر ایک سو فتوے بھی جاری کر دیے جائیں تو خدا کی قسم میں کبھی بھی عبایہ پہننا نہیں چھوڑوں گی۔

ایسا کرنے کے لیے میری لاش سے گزرنا ہو گا۔ لڑکیوں کو یہ فتوے نہیں سننا چاہییں۔‘ سعودی عرب کی ایسی خواتین جو عوامی مقامات پر عبایہ نہیں پہنتیں اور جہاں انھیں غیر مطلقہ مرد دیکھ سکتے ہیں کو مذہبی پولیس کی جانب سے سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سنہ 2016 میں ایک سعودی خاتون کو دارالحکومت ریاض کی ایک سٹرک پر اپنا عبایہ اتارنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔

روئٹرز کے مطابق سعودی خواتین نے حالیہ برسوں کے دوران روایتی کالے عبایہ کی جگہ مختلف رنگوں کے عبائیہ کا استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں لانگ سکرٹس یا جینز پر کھلے عبایہ پہننے کا استعمال عام ہوا ہے۔شیخ مطلق کی یہ مداخلت اس اصلاحی منصوبے کا حصہ ہے جو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے سعودی سماج کو جدید بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے ویژن پروگرام 2030 کے ساتھ ملک کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت سعودی خواتین کو مزید آزادی دینا اور ان پر ستمبر سنہ 2017 سے گاڑی چلانے پر عائد پابندی کا خاتمہ ہے۔ سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار گذشتہ ماہ قومی دن کے موقع پر خواتین شائقین کو سٹیڈیم جا کر مردوں کے فٹبال میچز دیکھنے کی اجازت دی گئی۔

سعودی حکومت نے گذشتہ سال خواتین کے کمرشمل سینیما جانے پر عائد 30 سالہ پابندی اٹھائی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ سعودی عرب میں آئندہ ماہ مارچ میں پہلا سینیما کھول دیا جائے گا۔ سعودی خواتین پر اب بھی کچھ پابندیاں برقرار ہیں جن میں ان کے لیے مردوں کی اجازت لینا ضروری ہوتی ہے ان میں سے چند یہ ہیں: 
 پاسپورٹ کا حصول 
 بیرون ملک سفر
 شادی بینک اکاؤنٹ کھلوانا
 مخصوص کاروبار شروع کرنا
 اپنی پسند کی سرجری کرانا وغیرہ

متعلقہ عنوان :