کشمیر کونسل کو ختم کرکے حکومت کو بااختیار بنانا تاریخی و احسن اقدام ہے

یہ اقدام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا،کشمیر کونسل کے خاتمے سے آزادکشمیر کے وزاء بھی با اختیار ہونگے اور پاکستان اور آزادکشمیر کے عوام اور حکومت کے مابین مزید تعلقات اور رشتے مستحکم ہوں گے سابق امیدوار اسمبلی بانی رکن مسلم لیگ (ن)محمد نہیب ٹھاکر کی میڈیا سے بات چیت

منگل 20 فروری 2018 16:00

میرپور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 فروری2018ء) سابق امیدوار اسمبلی بانی رکن مسلم لیگ ن آزاد کشمیر ایکشن فورم متاثرین منگلا ڈیم کے صدر راجہ محمد نہیب ٹھاکر نے کہا ہے کہ کشمیر کونسل کو ختم کرکے آزاد کشمیر حکومت کو بااختیار بنانا تاریخی اور احسن اقدام ہے،جو تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا،کشمیر کونسل کو ختم کرواناوزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے علاوہ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی،اپوزیشن اوچھل کود کے بجائے آزاد کشمیر حکومت کو بااختیار بنانے میں موجودہ حکومت کی سپورٹ کرے،کشمیر کونسل کے اس سال کے فنڈز آزاد کشمیر بھر میں بلاتخصیص تقسیم کئے جائیں۔

جموں وکشمیر کونسل کے ملازمین کی ملازمتوں کا فیصلہ وزیراعظم آزاد کشمیر جلد کریں گے۔

(جاری ہے)

کونسل کے خاتمے سے آزادکشمیر کے وزائ بھی با اختیار ہونگے اور پاکستان اور آزادکشمیر کے عوام اور حکومت کے درمیان مزید تعلقات اور رشتے مستحکم ہوں گے۔کشمیری پاکستان کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچنے دیں گے۔منگل کو سابق امیدوار اسمبلی بانی رکن مسلم لیگ(ن)آزاد کشمیر ایکشن فورم متاثرین منگلا ڈیم کے صدر راجہ محمد نہیب ٹھاکر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آزاد کشمیر اورکشمیری عوام وزیراعظم پاکستان کے شکر گزار ہیں جنہوں نے آزادکشمیر کا دیرینہ اور اہم مسئلہ کے حل کی جانب عملی اقدامات اٹھائے ہیں۔

کشمیر کونسل کے خاتمہ کی جانب پیش رفت اہم قدم ہے اس سلسلہ میں وزیراعظم فاروق حیدر کو پارلیمانی پارٹی اور کابینہ کا مکمل اعتماد حاصل ہے ،البتہ اس حوالے سے دیگر تمام جماعتوں کے ساتھ مشاورت اور اتفاق رائے ضروری ہے۔کشمیر کونسل کامتبادل بندوبست ضروری ہے یہ ایک پارٹی نہیں بلکہ ریاست جموں وکشمیر کا معاملہ ہے وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے جس طرح یقین دہانی کروائی ہے ان کی پالیسی واضح نظر آتی ہے یقین ہے کہ ایسا ہو جائے گا۔

حکومت کوشش کرئے گی کہ مکمل یکجہتی و اتفاق رائے سے یہ معاملہ انجام پذیر ہو، پارلیمانی نظام میں وزیراعظم اختیارات کا مرکز ہوتا ہے ،آزاد کشمیر کا موجودہ انتظامی سیٹ اپ اور عبوری آئین ایکٹ 1974 ء کے تحت پارلیمانی نظام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت حکومت پاکستان کو حاصل اختیارات اور ذمہ داریوں کا نتیجہ ہیں۔ آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974 ء میں ترامیم کے تحت حکومت آزاد کشمیر کے اختیارات میں اضافہ کی بات پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں ہوئی تھی جب کشمیر کونسل کی نشستوں میں اضافے کی کوشش کی گئی تو اس وقت کے وزیر امور کشمیر میاں منظور وٹو نے آزاد کشمیر کی جملہ سیاسی قیادت کیساتھ مشاور ت کے بعد عبوری آئین ایکٹ 1974 ء میں ترامیم کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی،جس کے سربراہ پہلے چوہدری لطیف اکبر اور ان کی علالت کے بعد محمد مطلوب انقلابی نے یہ ذمہ داری نبھائی ہم بھی اس کمیٹی میں شامل تھے ،اس کمیٹی نے آزاد کشمیر کی جملہ سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی ، بار ایسوسی ایشن سمیت تمام مکاتب فکر کیساتھ ملاقاتیں کر کے ان پٹ حاصل کیا، اس حوالے سے کمیٹی کے کئی اجلاس منعقد ہوئے جن میں سیر حاصل بحث کی گئی ہماری اپنی جماعت کے اندر بھی 8گھنٹے کی طویل نشستیں ہوئیں جن میں عبوری آئین ایکٹ 1974 ء کے ایک ایک آرٹیکل پر بحث کی گئی۔

ترامیم کا بنیادی نکتہ پاکستان کے آئین 1973 ء میں 18ویں اور 19ویں ترامیم کے ذریعہ اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لینا تھا کہ کس طرح آزاد کشمیر کو بھی دیگر صوبوں کی طرح اختیارات مل سکیں ،کشمیر کونسل فیڈریشن طرز پر قائم ہے ،جس کے پاس 2طرح کے فنڈز ہیں ایک حکومت آزاد کشمیر کے پاس اور دوسرا کشمیر کونسل کے پاس ، کونسل ممبران کا انتخاب آزاد کشمیر اسمبلی کے ذریعہ ہوتا ہے۔۔

متعلقہ عنوان :