خیبر پختونخوا حکومت نے پولیس میں سیاسی مداخلت کی مکمل روک تھام کیلئے اصلاحات کا کام مکمل کرلیا

صوبائی پولیس ایکٹ 2017کے تحت پولیس کی کارکردگی جانچنے ،مستقبل کی منصوبہ بندی اور محکمانہ امور کی نگرانی کیلئے صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن قائم کیاجائیگا، کمیشن کی خود مختاری اور غیر جانبداری یقین بنانے کے لئے ارکان کا تقرر صرف چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کی سربراہی میں سکروٹنی کمیٹی کرسکے گی کمیشن کی مدت 3سال ،پولیس کی کارکردگی،سالانہ صوبائی پالیسی پلان،نئی قانون سازی،محکمے میں خریداری کی نگرانی،سول انتظامیہ اور دیگر اہم معاملات کیلئے ایپلٹ ادارے کی حیثیت حاصل ہوگی، ضلع اور علاقائی سطح پر پولیس کی نگرانی کیلئے ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن اورریجنل کمپلینٹ اتھارٹیز قائم ، فیصلوں کی توثیق کا اختیار صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کو ہوگا خیبر پختونخوا پولیس میں حکومتی مداخلت ختم ہوگئی، گزشتہ 4سال میں کے پی کے پولیس قانون کے علاوہ کسی کی نہیں سنتی، پولیس ریفارمز کے بعد کوئی کر پٹ اہلکار نہیں بچ سکے گا، آئی جی خیبر پختونخوا پولیس

پیر 19 فروری 2018 21:55

اسلام آباد/پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 فروری2018ء) خیبر پختونخوا حکومت نے پولیس میں سیاسی مداخلت کی مکمل روک تھام اورپولیس نے خود احتسابی کیلئے اصلاحات کا کام مکمل کرلیا‘ صوبائی پولیس ایکٹ 2017کے تحت پولیس کی کارکردگی جانچنے ،مستقبل کی منصوبہ بندی اور محکمانہ امور کی نگرانی کیلئے صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کے قیام کے حوالے سے منصوبے کی حتمی شکل دیدی گئی، صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کو خود مختار بنانے اور غیر جانبدار رکھنے کیلئے ارکان کا تقرر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کی سربراہی میں سکروٹنی کمیٹی کریگی،کمیشن کی مدت 3سال تک ہوگی۔

کمیشن کوپولیس کی کارکردگی،سالانہ صوبائی پالیسی پلان،نئی قانون سازی،محکمے میں خریداری کی نگرانی،سول انتظامیہ اور دیگر اہم معاملات کیلئے ایپلٹ ادارے کی حیثیت حاصل ہوگی۔

(جاری ہے)

ضلع اور علاقائی سطح پر پولیس کی نگرانی کیلئے ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن اورریجنل کمپلینٹ اتھارٹیز قائم کی جائیں گی جن کے فیصلوں کی توثیق کا اختیار صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کو ہوگا۔

اس حوالے سے آئی جی خیبر پختونخوا پولیس صلاح الدین خان محسود کا کہناتھا کہ محکمہ پولیس میں ریفامرز سے متعلق صوبائی حکومت اور پولیس نے کام مکمل کر لیا ہے، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کی سربراہی میں سکروٹنی کمیٹی جلد کمیشن کی تشکیل کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گی، خیبر پختونخوا پولیس میں حکومتی مداخلت ختم ہوگئی، گزشتہ 3سے 4سال میں کے پی کے پولیس کسی کی نہیں سنتی ماسوائے قانون کی، پولیس ریفارمز کے بعد کوئی کر پٹ اہلکار نہیں بچ سکے گا۔

تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا پولیس نے سیاسی مداخلت کی روک تھام اور خود احتسابی کیلئے ریفارمز کا کام مکمل کرلیا‘ محکمہ احتساب کیلئے صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کے قیام کیلئے کام مکمل کر لیا گیا جس کے ساتھ ریجنل کمپلینٹ اتھارٹی ‘ ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن قائم کیا جائے گا۔ صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن 13ارکان پر مشتمل ہوگا جس میں صوبائی اسمبلی کے 4نمائندے (دو حزب اقتدار اور دو حزب اختلاف)‘ 8 غیر سرکاری ممبران شامل ہونگے جن میں ہائی کورٹ کا ریٹائرڈ جج ‘ ریٹائرڈ میجر جنرل‘ 21ویں گریڈ سے ریٹائرڈ سول سرونٹ‘ 21گریڈ سے ریٹائرڈ پولیس افسر ‘ سول سوسائٹی ‘ اقلیتی اور ایک خاتون ممبر شامل ہوگی۔

صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کے ارکان کا تقرر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کی منظوری سے ہوگا۔ صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کی معیاد تین سال تک ہوگی۔ صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن سال میں 2بار پولیس کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ اورسالانہ پلان تشکیل دے گا، کمیشن سینئر پولیس افسران سے متعلق شکایات پر انکوائریوں اور محکمے میں نئی خریدرای کی نگرانی کریگا،کمیشن پولیس افسران کی قبل ازوقت ٹرانسفر کے مسائل بھی دیکھے گا،کمیشن پولیس سے متعلق نئی قانون سازی کر سکے گا اور اپنی سالانہ رپورٹ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور صوبائی اسمبلی میں جمع کرانے کا پابند ہوگا۔

ڈسٹرکٹ سیفٹی کمیشن اور ریجنل کمپلینٹ اتھارٹی صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کے ماتحت ہونگے۔ ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن کے 13ممبرز ہونگے جن میں ڈسٹرکٹ اسمبلی کے چار منتخب ارکان (دو حزب اقتدار اور دو حزب اختلاف) جبکہ 9 غیر سرکاری ممبران ہونگے جن میں چار ممبران 19ویں گریڈ کے ریٹائرڈ سول سرونٹس ‘ ریٹائرڈ آرمی آفیسرز جبکہ پانچ ارکان سول سوسائٹی سے ہونگے۔

ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن کے چیئرمین کا انتخاب سیشن جج کے ماتحت تین رکنی سلیکشن بورڈ کرے گا۔ ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن غیر قانونی گرفتاریوں کی روک تھام کیلئے پولیس اسٹیشنز پر چھاپہ مار سکے گا،کمیشن سال میں 4بار ڈسٹرکٹ بھر میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیکر رپورٹ مرتب کریگا،کمیشن ڈی پی او سے مشاورت کر کے ڈسٹرکٹ میں نئے تھانوں کے قیام اور پولیس کی خالی آسامیوں کے حوالے سے فیصلہ کریگا، جبکہ پانچ لاکھ سے زائد کسی بھی خریداری کیلئے کمیشن سے اجازت لینا ضروری ہوگا۔

اسی طرح ریجنل پولیس کمپلینٹ اتھارٹی بھی قائم کی جائے گی جس کے تین ممبران ہونگے جن میں ایک ریٹائرڈ جج ’21 ویں گریڈ کا افسر اور ایک سول سوسائٹی کا نمائندہ شامل ہوگا۔ ممبران کا تقرر ہائیکورٹ کے جج کے ماتحت تین رکنی سلیکشن پینل کرے گا۔ ریجنل پولیس کمپلینٹ اتھارٹی پولیس سے متعلق تمام شکایات کا جائزہ لے سکے گی اور متعلقہ آر پی او یا ڈی پی او کو انکوائری اور ایکشن لینے کی ہدایت دے سکے گی،فائنل اتھارٹی صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن ہوگا۔

خیبرپختونخوا پولیس نے براہ راست ڈی پی او تک شکایات پہنچانے کیلئے ایس ایم ایس سروس بھی 2015ء سے شروع کی ہے جس کے تحت عوام اپنے متعلقہ ڈی پی او کو پولیس سے متعلق اپنی شکایات سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ ایس ایم ایس سروس میں پولیس افسران مقررہ وقت تک عوامی شکایات کا جواب دینے اور انکوحل کرنے کے پابند ہیں۔ ایم ایس ایم سروس کا سالانہ آڈٹ بھی کیا جاتا ہے۔

خیبرپختونخوا پولیس میں 2013 سے 2017 تک کرپشن اور دیگر غیر قانونی کاموں میں ملوث 8161پولیس افسران اور اہلکاروںکو سزائیں دیں جبکہ 1006پولیس افسران اور اہلکاروں کو محکمے سے نکال دیا گیا۔ نکالے جانے والوں میں 13ڈی ایس پیز‘ 8انسپکٹرز‘ 54سب انسپکٹرز‘ 49اے ایس آئی‘ 91ہیڈ کانسٹیبلز اور 751 کانسٹیبل شامل ہیں جبکہ غیر قانونی کاموں میں ملوث مختلف سزائیں جن افسران کو دی گئیں ان میں 8ڈی ایس پیز‘ 77انسپکٹر‘ 569سب انسپکٹر‘ 694اے ایس آئی‘ 970ہیڈ کانسٹیبل اور 4837کانسٹیبل شامل ہیں۔

آئی ین پی سے گفتگو کرتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا پولیس صلاح الدین خان محسودنے کہا کہ محکمہ پولیس میں ریفامرز سے متعلق صوبائی حکومت اور پولیس نے کام مکمل کر لیا ہے، صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کے ارکان کا تقرر چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کی سربراہی میں سکروٹنی کمیٹی جلد کریگی،امید ہے اس پر جلد کام مکمل کر لیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہخیبر پختونخوا پولیس میں حکومتی مداخلت ختم ہوگئی، گزشتہ 3سے 4سال میں کے پی کے پولیس کسی کی نہیں سنتی ماسوائے قانون کی، پولیس ریفارمز کے بعد کوئی کر پٹ اہلکار نہیں بچ سکے گا۔

متعلقہ عنوان :