سینیٹ انتخابات میں گھوڑے بکنے جارہے ہیں، مولانا فضل الرحمن

ووٹ خریدنے کا رجحان خطرناک اور منتخب نمائندوں کی منڈیاں لگنا افسوسناک ہے، امیر جمعیت علمائے اسلام ڈگریوں والے لاکھوں نوجوان بیروزگار ہیں،سرکاری تعلیمی اداروں کے نوجوانوں کے روزگار کی فکر نہیں،لیکن فکر لاحق ہوگئی ہے تو مولوی کے روزگار کی،انکو فکر مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی ہے،پتہ نہیں یہ قومی دھارا ہے کیا، درس قرآن علماء کنونشن سے خطاب

پیر 19 فروری 2018 21:02

سینیٹ انتخابات میں گھوڑے بکنے جارہے ہیں، مولانا فضل الرحمن
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 فروری2018ء) امیرجمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں گھوڑے بکنے جارہے ہیں،سینیٹ کے انتخاب میں ووٹ خریدنے کا رجحان خطرناک اور منتخب نمائندوں کی منڈیاں لگنا افسوسناک ہے،ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی کے علاقے لیاری میں درس قرآن و علماء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ سینیٹ کے انتخابات شفاف بروقت ہونے چاہئیں،سینیٹ انتخابات میں گھوڑے بکنے جارہے ہیں،یہ رجحان پاکستان کے لیے باعث عار ہے،بظاہر لگتا ہے کہ منڈیاں لگی ہوئی ہیں اصطبل بنے ہوئے ہیں،کیا یہی لوگ ہمارے لیے قانو ن سازی کرینگے ملک کے فیصلے کرینگے،عمران خان کا ماضی اور سیاسی مستقبل بھی معلوم ہے ،عمران خان کے آگے ہے نہ پیچھے ہے،عمران خان کا لاس اینجلس سے ڈی چوک تک معلوم ہے۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمٰن نے ایم کیو ایم پاکستان کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کی سیاست کو پورے کراچی کی سیاست نہیں سمجھتا۔ایم کیو ایم پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔،سینیٹ کے انتخاب میں ووٹ خریدنے کا رجحان خطرناک ہے،منتخب نمائندوں کی منڈیاں لگنا افسوسناک ہے۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ ڈگریوں والے لاکھوں نوجوان بیروزگار ہیں،سرکاری تعلیمی اداروں کے نوجوانوں کے روزگار کی فکر نہیں،لیکن فکر لاحق ہوگئی ہے تو مولوی کے روزگار کی،انکو فکر مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی ہے،پتہ نہیں یہ قومی دھارا ہے کیا پیدا پاکستان میں ہوئے نسل پاکستانی ہے مگر کہتے ہیں کہ ہم قومی دھارے میں نہیں۔

اگر ہمارے آباؤ اجداد کے پاکستانی ہونے اور ہمارے ملک سے وفادار ہونے کے بعد بھی ہم قومی دھارے میں نہیں ہیں تو سن لو تم لاکھ دعوے کرو لیکن تم بھی اسلامی دھارے میں شامل نہیں ہو۔انہوں نے کہا کہ ،آج کے دور میں اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ عام آدمی کا ووٹ ہے۔نظام کی تبدیلی میں حصہ دار بننے کے لیے ووٹ ہی ہتھیارہے۔انہوں نے کہاکہ جن کو سیاست کے لفظی معنی نہیں آتے وہ سیاستدان کہلاتے ہیں،ہم دھوکے بازی جھوٹ کی سیاست سے ناواقف ہیں،خوشحال معیشت اور قران وسنت کے لیے سیاست ہمارا ہی حصہ ہے،ہم پارلیمانی جمہوری سیاست کرتے ہیں، آپ بین الاقوامی دباؤ کے تحت ملک چلارہے ہیں،جمیعت علمائے اسلام تمام مذاہب و قومیتوں کی نمائندگی کرتی ہے،کوئی جماعت ہمارے مقابلے میں جلسے نہیں کرسکتی،پشاور میں صدسالہ جلسے میں پچاس لاکھ لوگ شریک ہوئے تھے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہاکہ ہم پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ مملکت رمضان کی ستائیس ویں شب کو وجود میں آئی،ہم نے وجود پاکستان کو نزول قران سے جوڑ دیا ہے،ستر سال گزرگیے اللہ کے ساتھ کتنے عہد وپیمان کیے،1949 میں قراراداد مقاصد کے زریعے قران کو رہنما مانا،ستر سال سے ہم اپنے عہد پر پورا نہیں اتر سکے، انیس سو تہتر کے آئین میں اسلام کو مملکتی مذہب قرار دیا گیا،اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک سفارش پر بھی قانون سازی نہیں کی گئی،اگر حکمران علما کی سفارش پر عمل نہ کریں تو وہ نظریہ پاکستان کی نفی کررہے ہیں،اللہ کے عہد وپیمان کوتوڑتے رہینگے تو پاکستان میں خوشحالی کیسے آئے گی۔#