امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے زیرکنٹرول صرف 18فیصد علاقہ رہ گیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 19 فروری 2018 11:54

امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے زیرکنٹرول صرف 18فیصد علاقہ رہ گیا
کابل(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 فروری۔2018ء)امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے زیرکنٹرول صرف 18فیصد علاقہ رہ گیا ہے، امریکی اخبار کے مطابق زیر کنٹرول حصے پر بھی حکومتی گروپوں میں چپقلش انتہا پر ہے۔صوبے سمنگان کے گورنر عبدالکریم خدام کی جانب سے اپنے پڑوسی صوبے بلخ کے گورنر عطا محمد نور کی پیروی کرتے ہوئے عہدے سے ہٹنے کا صدارتی حکم کو ماننے سے انکار کردیا ہے اسی طرح کئی دیگر صوبوں کے گورنر صدر اشرف غنی کے قابو میں نہیں ہیں۔

سیاسی بحران پر مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کی کمزوری سامنے آگئی ہے۔گورنر عبدالکریم خدام کا کہنا ہے مجھے ہٹانے کا فیصلہ سیاسی ہے اور میں اسے قبول نہیں کرتا، میں نے سمنگان کے لیے بہتر کام کیا ہے اور میرے لوگ مجھے جانے نہیں دیں گے۔

(جاری ہے)

صدر اشرف غنی کی جانب سے عطا محمد نور سے جاری تنازعات ختم کرنے کے لیے کافی ہفتوں سے جدوجہد جاری ہے، تاہم ان کی جانب سے بلخ کی گورنر شپ واپس دینے سے انکار کردیا تھا۔

یہ صوبہ وسطی ایشیا میں اہم تجارتی راستوں تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں افغانستان کا دوسرا بڑا شہر مزار شریف بھی شامل ہے۔دوسری جانب طالبان جنگجوﺅں کی جانب سے افغان دارالحکومت کابل میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے اور آئے روز شہر کو خود کش حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اس تنازعے نے رواں برس ہونے والے انتخابات سے پہلے ہی اشرف غنی کی حکومت کو کمزور کردیا ہے۔

گورنر عبدالکریم خدام ایک ترکمان ہیں لیکن وہ اور عطا محمد نور دونوں جمعیت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی جماعت کو فارسی بولنے والی تاجکوں کی حمایت حاصل ہے جن کی اشرف غنی اور پختونوں کے ساتھ دشمنی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اگرچہ اشرف غنی کے ساتھ جمعیت اسلامی سے تعلق رکھنے والے عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹو کی طاقت کے ساتھ شریک ہیں لیکن جمعیت اسلامی کی جانب سے اشرف غنی پر طاقت کی اجارہ داری اور پختونوں کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔

اسی طرح ان دونوں کے درمیان اس تقسیم کو دور کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ایک نیا کام کیا گیا اور ایک نئے الیکٹرانک کارڈ متعارف کرائے گئے جس میں حزب مخالف کے لوگوں کے لیے بھی قومی شناخت افغان کی اصطلاح کا استعمال کیا گیا جو گزشتہ ادوار میں پختون کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ تاہم بہت سے تاجکوں کی جانب سے اس اصطلاح کو پختون کی جانب سے غلبے کے طور پر لیا گیا اور انہوں نے ان کارڈ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔