پاکستان کا دیرپا امن وامان افغانستان میں مستقل امن اور استحکام سے منسلک ہے،چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ

آرمی چیف کی میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں علاقائی اور عالمی سکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کے نقطہ نظر کی وضاحت

اتوار 18 فروری 2018 15:10

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 فروری2018ء) چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان کا دیرپا امن وامان افغانستان میں مستقل امن اور استحکام سے منسلک ہے آئی ایس پی آٰر کی جانب سے ہفتہ کی رات جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق آرمی چیف نے میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علاقائی اور عالمی سکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کے نقطہ نظر کی وضاحت کی ۔

انہوں نے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود پاکستان مغربی ہمسایہ ملک افغانستان میں امن و امان کے قیام کیلئے بہترین ممکنہ کوششیں کر رہا ہے تاہم یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب دونوں ممالک کی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیا جائے ۔ جنرل قمر باجوہ نے مزید کہا کہ پاکستان میں اس وقت بھی 2.7ملین افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں اور تحریک طالبان افغانستان اور حقانی نیٹ ورک ان کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل مکمل کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ صرف یہی ایک راستہ ہے جس سے میزبانی کے نامناسب استعمال کو روکا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت افغان جنگ پر سالانہ 46ارب ڈالر کے اخراجات ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک افغان سرحد کو محفوظ بنایا جا رہا ہے اور سرحدی نظام کی بہتری کیلئے پاکستان نے خاطر خواہ جامع اقدامات کئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سرحد وں کی حفاظت کیلئے نئے یونٹس کے قیام ،سرحد پر سینکڑوں حفاظتی مراکز کی تعمیر کیلئے پوسٹیں قائم کی ہیں جبکہ پاک افغان 2300کلو میٹر سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی شروع کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ سرحد پر عام افغان شہریوں کی سہولت اور دہشتگردوں کے ممکنہ داخلہ کو روکنے اور ان کی گرفتاری کیلئے بائیو میٹرکس کا نظام بھی شروع کیا ہے۔

آرمی چیف نے مزید کہا کہ افغان مسئلہ کے پر امن حل کیلئے مذاکرات کے ایجنڈا کی پاکستان پُر زور حمایت کرتا ہے جبکہ ہم خطے میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے عالمی برادری کی حکمت عملی کی بھی موثر معاونت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اختلافات کے خاتمہ کیلئے تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے پاکستان پھر کوشش کر رہا ہے تاکہ مسئلہ کا پر امن سیاسی حل تلاش کیا جا سکے ۔

آرمی چیف نے کہا کہ دیگر ممالک کے مقابلہ میں پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے 11سو دہشتگردوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ 600کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے بھی کیا گیا ہے تاکہ پاکستان اور افغانستان سے القاعدہ کے خاتمہ کو یقینی بنایا جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوششیں اب بھی جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ داعش کے لوگوں کی افغانستان منتقلی کے حوالے سے کئی ممالک کی ایجنسیاں رپورٹ کرچکی ہیں جس پر پاکستان کو تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں ہے تاہم ہمسایہ ملک میں داعش کی تعداد میں اضافہ پر پاکستان کو تشویش ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم باہمی تعاون کے ذریعے اس خطرہ سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں کامیابی اور دنیا سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمہ پر وقت لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پہلے دہشت گردوں کے نظریات کوختم کرنا ہوگا تاکہ دہشتگردی کی کمر توڑی جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے اس حوالے سے زیادہ کام نہیں کیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ باہمی اعتماد اور تعاون سے کام کرنا ہوگا تاکہ اس عمل کو کامیاب بنایا جا سکے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگرد ہمارے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر متحد ہو سکتے ہیں ۔

اس حوالے سے ہمیں متحد ہونا ہوگا۔ انہوں نے کانفرنس کے شرکاء سے اپیل کی کہ مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے باہمی اتفاق ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا ہمیں احساس ہونا چاہئے اور اسکے خاتمہ کیلئے بھی مشترکہ سوچ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ انفرادی کوششوں سے مقاصد کے حصول میں مشکلات ہوں گی۔چیف آف آرمی سٹاف نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کی جنگ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اس حوالے سے لازوال قربانیاں دی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جہاد کے نظریہ کی وضاحت ضروری ہے اور جہاد کے نظریہ کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ خود پر قابو رکھنا اسلامی نقطہ نظر سے بہترین جہاد ہے۔ حضرت محمد ﷺ کابھی فرمان ہے کہ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بہترین جہاد ہے جبکہ دوسری جانب مسلح جدوجہد اور قتال کا دوسرا نمبر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جہاد کا اعلان صرف حکومت یا ریاست کرسکتی ہے اور کسی شخص کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے ۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ دہشتگردی اور انتہا پسندی کے نظریات کے فروغ کیلئے جہاد کے مفہوم کو غلط استعمال کیاجاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ دنیا بھر کے مسلمان دہشتگردی کے خلاف ہیں۔انہوں نے کہا کہ 9/11کے بعد جہاد کے نظریہ کو زیادہ فوقیت ملی جو اس سے پہلی1979ء میں افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد بھی رواج پذیر ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہم سب مشترکہ طور پر ذمہ دار ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر رونالڈ ریگن کی جانب سے خلائی شٹل کو 10مارچ 1982ء کو افغان مجاہدین کے نام کرنے سے بھی نظر ئے کو تقویت ملی ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان دیگر ممالک کی طرح پر امن ملک تھا تاہم افغان جہاد کے آغاز سے اس نظریہ کافروغ ہوا اور دنیا بھر سے اس کے لئے لوگوں کو بھرتی کیا گیا اور افغانستان سے روسی فوج کے انخلاء کے بعدان کو اسی طرح چھوڑ دیا گیا جس سے دہشتگردی میں اضافہ ہوا۔

آرمی چیف نے کہا کہ دہشتگردی کے مکمل خاتمے میں وقت لگے گا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردوں اور انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے عظیم قربانیاں دی ہیں اور 35 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جان قربان کی جبکہ 48 ہزار سے زائد زخمی اور معذور ہوئے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو 250 ارب ڈالر کا معاشی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے تاہم اس کے خدشات موجود ہیں کیونکہ افغان مہاجرین کے 54 کیمپوں اور پہاڑی علاقوں میں ان کی موجودگی اورخفیہ ٹھکانے ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے دوران ہماری سرحد پر 131 دہشتگردانہ حملے کئے گئے جن میں سے 123 کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد افغانستان سے کیا گیا۔ ہمیں افغانستان میں عدم استحکام پر تشویش ہے اور افغانستان کے شہر کابل میں کئی ممالک کی فوج کی موجودگی کے باوجود افغانستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں بڑھنا پریشان کن ہے۔

متعلقہ عنوان :