وفاقی بجٹ 2018-19 بزنس فرینڈلی ہوگا ، کوشش ہوگی کوئی نیا ٹیکس نہ لگایا جائے،رانا محمد افضل خاں

ہفتہ 17 فروری 2018 22:02

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 فروری2018ء) وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خاں نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ 2018-19 بزنس فرینڈلی ہوگا اور کوشش کی جائیگی کہ اس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگایا جائے۔ وہ فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں بجٹ تجاویز کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت کو بیک وقت بہت سے محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے لیکن حکومت کی کوشش ہوگی کہ معاشی دباؤ سے نکلنے کے بعد بھی معاشی ترقی کے موجودہ تسلسل کو برقرار رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ صنعتی ترقی سے ہی ملک کی بزنس کمیونٹی اور پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ اس لئے وہ آئندہ بجٹ کی تیاری کے سلسلہ میں کراچی ، سکھر اور پشاور سمیت ملک کے دیگراہم شہروں کے تمام سیکٹرز کے مسائل اور تجاویز پر بات چیت کریں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے واضح کیا کہ وہ بجٹ کی تیاری کے سلسلہ میں وقتی فائدہ کو مد نظر نہیں رکھیں گے۔

اس سلسلہ میں بجٹ اس سوچ کے ساتھ بنایا جا رہا ہے کہ آئندہ حکومت بھی مسلم لیگ (ن) کی ہوگی اور وہ اس کیلئے مشکل معاشی صورتحال پیدا نہیں کرنا چاہتے ۔ رانا افضل نے کہا کہ ہر سیاسی حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ نئے ٹیکس نہ لگیں بلکہ پرانے ٹیکسوں کی بہتر وصولی سے ہی زیادہ وسائل پیدا کئے جائیںلہٰذا ہماری بھی یہی کوشش ہوگی۔ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے عمومی رویہ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بطور ایک کاروباری شخص وہ خود بھی یہی چاہتا ہے کہ ٹیکس حکام کا رویہ بہتر ہواور اس مقصد کے حصول کیلئے نظام میں بہتری لانے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

قصور کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں فرانزک سائنس کو کامیابی سے استعمال کیا گیا اسی طرح ٹیکس دہندگان کیلئے بھی فرانزک آڈٹ کے طریقہ کار کو استعمال کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ 2014 میں بطورپارلیمانی سیکرٹری انہوں نے سوئٹزلینڈ سے پاکستانیوں کا سرمایہ وطن واپس لانے کا مطالبہ کیا تھا مگر اس وقت ایسا کوئی قانون نہیں تھا ۔

تام چار سال کی مسلسل کوششوں کے نتیجہ میں یکم جنوری 2018 سے ہمیں اطلاعات کے باہمی تبادلے کی اجازت ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ دوبئی بھی ہمیں 10 سالوں سے وہاں سرمایہ کاری کرنے والوں کی اطلاعات مہیا نہیں کر رہا تھا تاہم اب وہ بھی ہمیں فرانزک آڈٹ کی سہولت دے رہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کو اس لائن پر لا رہے ہیں کہ ٹیکس دینے کی صلاحیت رکھنے والے پر صاحب حیثیت شخص کو باعزت طور پر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے ۔

انہوں نے بتایا کہ اس سلسلہ میں ابتدائی کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم بطور کاروباری شخص ہمیں بھی اپنی سطح پر تیاری کر لینی چاہیئے اور اس سلسلہ میں لوگوں کی آگاہی کیلئے چیمبر سے بہتر کوئی اور فورم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کی بکس آف اکاؤنٹس ٹھیک ہونگی تو آپ کی بیلنس شیٹ بھی بہتر ہوگی اور اس کے نتیجہ میں مقامی صنعتکاروں کو مشترکہ منصوبے شروع کرنے میں بھی آسانی ہوگی کیونکہ کوئی بھی غیر ملکی ادارہ مشترکہ منصوبہ شروع کرنے سے قبل دوسری پارٹی کی بیلنس شیٹ ہی دیکھتا ہے۔

انہوں نے چین میں منعقد ہونے والے روڈ شو میں اپنی شرکت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس میں 600-500 چینی کمپنیوں نے حصہ لیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ چینی حکومت اپنے صنعتکاروں کو دوسرے ملکوں میں جا کر صنعتیں لگانے کیلئے دھکے دے رہی ہے کیونکہ ان کے خیال میں اب چین میں مزید صنعتیں لگانے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کیلئے بھی اسی نظام پر کام ہو رہا ہے۔

ود ہولڈنگ ٹیکس کے حوالے سے رانا محمد افضل خاں نے بتایا کہ اس مسٴلہ پر حکومت اور بزنس کمیونٹی میں اختلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹیکس آپ لوگوں نے تھرڈ پارٹی کا کاٹنا ہوتا ہے۔ اگر ہمیں تھرڈ پارٹی کا پتہ نہیں لگے گا تو ہم ٹیکس نیٹ کو کس طرح بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ہی پہلی بار فائلر اور نان فائلر کے فرق کو واضح کیا۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک ٹیکس ریٹ کی بات ہے حکومت ٹیکس سلیب کو بڑھا کر چھ سے آٹھ لاکھ کرنے پر غور کر رہی ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کی شرح کو 30سے کم کرکے 20 فیصد کرنے کی تجویز ہے جبکہ اس سے ہونے والے خسارے پر قابو پانے کی صورت میں اسے 15 فیصد تک کرنے کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ رانا محمد افضل خاں نے ریئل ایسٹیٹ اور زرعی انکم ٹیکس کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بتایا کہ پنجاب خوراک کے معاملہ میں خود کفیل ہے۔

اس وقت ہمارے پاس 5 ملین ٹن گندم اور ڈیڑھ سو ٹن چینی فالتو پڑی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے زیادہ تر کاشتکار 5 ایکڑ سے کم زمین کے مالک ہیں اس لئے ان سے زیادہ ٹیکس کی امید نہیں رکھی جانی چاہیئے۔ انہوں نے اپنے حالیہ دورہ اٹلی کابھی ذکر کیا اور بتایا کہ اس دوران انہوں نے تین مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کئے جس کے تحت انسٹیٹیوٹ آف ماربل کٹنگ اینڈپالشنگ ، انسٹیٹیوٹ آف لیدر اینڈ شو، انسٹیٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائن اور انسٹیٹیوٹ آف نٹ ویئر قائم کئے جائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی کوشش ہے کہ انسٹیٹیوٹ آف فیشن ڈیزائن نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آبادمیں قائم ہو۔ انہوں نے بتایا کہ 58 ممالک میں کمرشل اتاشی تعینات کرنے کا کام تقریباً مکمل ہو گیا ہے جس کے بعد پاکستانی برآمدات میں تیزی سے اضافہ کیا جا سکے گا ۔ انہوں نے دیگر بجٹ تجاویز پر بھی سنجیدگی سے غورکرنے کا یقین دلایا تاہم کہا کہ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح خطے کے تمام ملکوں سے کم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت میں یہ شرح 17 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں اب یہ ساڑھے گیارہ فیصد ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عالمی بنک کے مطابق پاکستان میں یہ شرح 25 فیصد ہونی چاہیئے۔

متعلقہ عنوان :