زینب زیادتی و قتل کیس اپنی نو عیت کا اہم ترین کیس ثابت ہوا ،

سپریم کورٹ ،لاہور ہائیکورٹ نے واقعہ کا نوٹس لے کر ٹرائل کورٹ کو سات روز کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند کیا، ملزم کیخلاف متعدد گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے، عدالت نے مرکزی ملزم عمران کو 4 بار سزائے موت ،10 لاکھ جرمانے کیساتھ عمر قید کی سزا کا حکم سنادیا

ہفتہ 17 فروری 2018 16:43

زینب زیادتی و قتل کیس اپنی نو عیت کا اہم ترین کیس ثابت ہوا ،
لاہور۔17 فروری(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 فروری2018ء) قصور میں ننھی بچی زینب زیادتی و قتل کیس اپنی نو عیت کا اہم ترین کیس ثابت ہوا جس کے بارے میں لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا اور ٹرائل کورٹ کو سات روز کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند کر دیا ۔ روزانہ کی بنیاد پر کیس کی کئی کئی گھنٹے سماعت ہوتی رہی بلکہ اس کیس کی تفتیش کے لیئے جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے برق رفتاری سے اپنا کام احسن طریقے سے انجام دیا ۔

تفصیلات کے مطابق 23 جنوری کو زینب کے قاتل کو قصور قبرستان سے گرفتار کیا گیا۔24 جنوری کو قاتل کو انسداددہشت گردی کی عدالت نمبر 1 میں حصول ریمانڈ کیلیے پیش کیا گیا۔انسداد دہشت گردی کے ایڈمن جج سجاد احمد نے کیس کی سماعت کی۔عدالت نے ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے کیا۔

(جاری ہے)

24 تاریخ کو ملزم کا پہلا ویڈیو بیان منظرعام پر آیا،ملزم نے ویڈیو میں بتایا کہ وہ بچی کو کیسے لیکر گیا اور کیا کیا۔

25 تاریخ کو لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا حکم دیا گیا۔عدالتی احکامات کے مطابق 7 دن کے اندر ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا گیا۔25 جنوری کو زینب کے والد کی جانب سے آفتاب باجوہ نے کیس لڑنے کا اعلان کیا۔ سپریم کورٹ بار کے سابق سیکرٹری ماہر ضابطہ فوجداری قانون آفتاب باجوہ نے زینب کیس کی فیس 10 روپے مقرر کی ۔26 جنوری کو زینب کے قاتل کی فوٹیج لیک ہونے پر سی آئی اے کے اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج ہوا،28 جنوری کو زینب قتل کیس کی سماعت سپریم کورٹ رجسٹری میں ہوئی۔

عدالت نے پراسکیوٹر جنرل کو زینب کیس میں عدالتی معاونت کا حکم دیا۔عدالت نے زینب کے والد اور اس کے وکیل کو کوئی بھی بیان میڈیا پر دینے سے روک دیا۔سپریم کورٹ نی قصور میں تعینات متعلقہ ڈ ی ا یس ایس پی او ایس ایچ او سے متعلق رپورٹ طلب کی۔سپریم کورٹ نے زینب کے والد کو اپنا بیان ریکارڈ کروانے کا حکم دیا۔سپریم کورٹ میں اس موقع پر زینب سمیت قتل ہونے والی نو بچیوں کے ورثا بھی پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے تمام لواحقین سے افسوس کا اظہار کیا۔ جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت میں اپنی رپورٹ جمع کروائی۔ملزم عمران کو 6 فروری کو مزید 8 بچیوں کے قتل کے الزام میں ریمانڈ کیلیے پیش کیا گیا۔انسداددہشت دہشت گردی عدالت نے ملزم کو 3 دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔زینب کے والد کی جانب سے آفتاب باجوہ نے ریکارڈ کے حصول کیلیے 7 فروری کو درخواست دائر کی ۔

درخواست میں سی سی ٹی وی فوٹیج، ڈی این اے ٹیسٹ ،فرانزک ٹیسٹ اور ریکارڈ مہیا کرنے کی استدعا کی گئی،انسداد دہشتگردی کی عدالت نے زینب کے والد کے وکیل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ ہائی پروفائل کیس ہونے کی بنا پر آپ کو کوئی بھی ریکارڈ فراہم نہیں کیا جاسکتا، 7 فروری کو عمران کو 14 روزہ ریمانڈ ختم ہونے پر دوبارہ پیش کیا گیا۔پراسکیوشن نے مزید 2 دن کے ریمانڈ کی استدعا کی ۔

عدالت نے تفتیش مکمل نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا، عدالت نے کہا کہ اگر ان دنوں میں کچھ نہیں کر سکے تو اب کیا کریں گے، پراسیکویشن نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم کے خلاف تفتیش آخری مراحل میں ہے صرف 2 دن دئیے جائیں۔ 9 فروری کو ملزم کو 2 دن کے ریمانڈ کے بعد پیش کیا گیا۔ملزم کے خلاف تفتیش مکمل ہونے پر پراسکیوشن نے چالان عدالت میں جمع کروایا۔

عدالت نے پراسکیوٹر عبدالروف وٹو سے استفسار کیا کہ کیا ثبوت اکٹھے کیے۔ جس پر پراسکیوٹر عبدالرف نے کہا کہ ملزم کیخلاف دوران تفتیش 6 ثبوت اکٹھے کیے گیے، ملزم کا ڈی این اے مییچ ہوا، ملزم کا ڈی این اے مثبت آیا، 4 سی سی ٹی وی فوٹیجز میں ملزم کی نشاندہی ہوئی،ملزم کی فوٹو فوٹیج کے تجزیہ سے نشاندہی کی گئی،ملزم سے کپٹرے، جیکٹ اور ٹوپی برآمد کی گئی۔

ملزم کے خلاف 56 لوگوں کے بیانات قلمبند کروائے گیے۔عدالت نے ملزم کو زینب کے قتل میں ملزم کا ٹرائل اور 8 بچیوں کے قتل میں جوڈیشل کرنے کا حکم دیا۔9 فروری کو ملزم کے وکیل کو چالان کی کاپی فراہم کی گئی،10 فروری کو سپریم کورٹ نے ملزم کا ٹرائل شروع ہونے پر کیس نمٹا دیا،12 جنوری سے کوٹ لکھپت جیل میں ٹرائل کا آغاز کیا گیا، اس طرح جیل میں مسلسل چار سماعت کے بعد 16 فروری جمعہ کو فیصلہ محفوظ کیا گیا ۔

ہفتہ سترہ فروری کو عدالت نے اپنا فیصلہ سُنایا ،لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے قصور میں ننھی بچی زینب قتل کیس مرکزی ملزم عمران کو 4 بار سزائے موت کا حکم دے دیا۔ عدالت نے 10 لاکھ جرمانے کے ساتھ عمر قید کی سزا دینے کا حکم دے کر اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچا دیا ۔ � شEXL/ ش ن/ن ص : 1545)