سپریم کورٹ میں بیرون ملک پاکستانیوں کے اکائونٹس سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت

ایف بی آر سے لگژری گاڑیاں رکھنے والے آفسران کی فہرست طلب کرلی، بیرون ملک سے پاکستانیوں کاپیسہ واپس لانے کیلئے گورنرسٹیٹ بینک کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی قائم کردی

جمعہ 16 فروری 2018 00:20

سپریم کورٹ میں بیرون ملک پاکستانیوں کے اکائونٹس سے متعلق ازخود نوٹس ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 فروری2018ء) سپریم کورٹ نے بیرون ملک پاکستانی شہریوں کے اکائونٹس ہونے سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں ایف بی آر سے لگژری گاڑیاں رکھنے والے آفسران کی فہرست طلب کرلی، مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی ،عدالت نے بیرون ملک سے پاکستانیوں کاپیسہ واپس لانے کیلئے گورنرسٹیٹ بینک کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ کمیٹی مشترکہ حکمت عملی اورطریقہ کار طے کرکے ایک ہفتے میں عدالت کو گائیڈ لائن پیش کرکے بتائے کہ پاکستانی شہریوں کی جانب سے بیرون ملک سے جمع کی گئی اربوں ڈالرکی رقم کس طرح واپس لائی جاسکتی ہے، کمیٹی کو یہ اختیارات بھی حاصل ہوں گے کہ وہ حکومت کے کسی بھی ادارے سے معلومات لے سکے گی کمیٹی کے دیگرارکان میں چیرمین ایف بی آر اورسیکرٹری خزانہ شامل ہوں گے ۔

(جاری ہے)

جمعرات کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میںتین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ، اس موقع پروفاقی سیکرٹری خزانہ ،گورنر اسٹیٹ بینک ،چیئرمین ایف بی آر سمیت دیگرحکام بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے بیرون ملک اکائو نٹس کھولنے کے ساتھ بڑی بڑی جائیدادیں بنا رکھی ہیں، گورنراسٹیٹ بینک ہمیں بتائیں کہ سوئٹزرلینڈ میں موجود پاکستانیوں کے اکائو نٹس سے پیسہ پاکستان واپس لایا جا سکتا ہے، جس پرگورنرسٹیٹ بینک نے کہاکہ بیرون ملک اکاو نٹس کے حوالے سے مختلف ملکوں سے معاہدے کئے جا رہے ہیں اس ضمن میں سوئٹزرلینڈ سے دو طرفہ معاہدہ ہو گیا ہے ، جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ کس طرح باہروالا پیسہ یہاں لا سکتا ہے اتناپیسہ بیرون ملک چلا گیا ہے، یہ ممکن نہیں کہ ساری رقم کالے دھن کی ہو ان میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جوقانی طریقے سے رقم لے کرگئے ہوں گے لیکن اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو غیرقانونی طریقے سے رقم لے کرگئے ہیں، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہاکہ کہاجاتاہے کہ جوپیسہ باہرلے جایا گیا ہے اگریہی پیسہ واپس لایا جائے تو ہمارے سارے قرضے اتر سکتے ہیں، عدالت کو گورنرسٹیٹ بینک اور سیکرٹری خزانہ سے بہت توقعات ہیں آپ قوم کے ہیروہوں گے، اگریہ کام آپ لوگوں نے کرلیا ،جس پرگورنر سٹیٹ بینک نے کہاکہ وہ اس حوالے سے اپنی بھرپور کوشش کریں گے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ان سے کہاکہ جرمنی اورسوئٹرز لینڈ میں ہزاروں لوگوں کے اکاونٹس ہیں ان کے بارے معلومات حاصل کی جائیں ، انڈیا نے بھی سوئٹرزلینڈ سے اپنے لوگوں کی معلومات حاصل کرلی ہیں ، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی سربراہی میں چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری خزانہ پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے کہاکہ آپ تینوں بڑے امانت دار افیسر ہیں، مل بیٹھ کر حکمت عملی بنائیںاور ایک ہفتے میں گائیڈ لائن دے کہ بیرون ملک سے رقم کیسے واپس لائی جاسکتی ہے ، کمیٹی حکومت کے کسی بھی ادارے سے معلومات لینے کی مجاز ہوگی، مقصد یہ ہے کہ غیرقانونی طریقے سے بھیجی گئی رقم واپس لائی جائے، عدالت پیسہ واپس لانے والوں کو رعایت دینے کے معاملے پر غور کرے گی ،جسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ اس حوالے سے جوبھی کاروائی ہوگی اس سے کسی طرح کاخوف وہراس پیدا نہیں ہونا چاہیے جو بھی کام کرنا ہے قانون کے مطابق کریں لیکن اگر کہیں قوانین میں سقم پایا جاتاہے توعدالت کواس کی نشاندہی کرائیں اوربتائیں کہ کونسی رقوم غیر قانونی طریقے سے منتقل ہوئی ہیں، پہلا کام ان لوگوں کا پتا چلانا ہے جو ٹیکس دیئے بغیر پیسا باہر لے گئے ہیں، اس کے ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ جو پیسا باہر سے پاکستان لایا جائے ان لوگوں کو کیا مراعات ملیں گی یہ ٹیکس کی ادائیگی اور عوامی مفاد عامہ کا مسئلہ ہے ۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اگر قوانین میں کہیں سقم موجود ہو تو ممکن ہے کہ ریاست کو قانون سازی کا کہا جائے، سماعت کے دوران چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ سوئٹزرلینڈ سے معلومات لینے کے تمام اقدامات مکمل کرلئے گئے ہیں جبکہ دوبئی کو بھی 55 افراد کی فہرست دیدی گئی ہے، بس پارلیمنٹ نے معاہدے کی توثیق کرنی ہے، جس کے بعد سوئٹزر لینڈ سے معلومات لے سکتے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کوبتایا کہ پاناما لیکس میں 444 پاکستانیوں کے نام آئے تھے جن میں سی2 لوگوں سے 6.62 ارب روپے ریکور کئے جاچکے ہیں، 363 لوگوں کو ایف بی آر نے نوٹسز جاری کیے تاہم 78 لوگوں کے پتے نہیں مل سکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا 78 متعلقہ افراد سے متعلق کوئی اشتہار جاری کیا گیا ہے نوٹسز تو 2016 ئ میں جاری ہوئے بتایا جائے اس حوالے سے اب تک کیا ہوا، کیا آف شور کمپنی والوں سے وضاحت مانگی گئی ہے ، جس پرفاضل ممبر نے کہا کہ ہم نے نادرا کو فہرست دی تھی،تاہم نادرا کی جانب سے 185 لوگوں کی معلومات نہہیں مل سکیں،72 لوگوں نے آف شور کمپنیوں سے اپنا تعلق تسلیم کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ان 72لوگوں سے پوچھا جائے کہ انہوں نے آف شور کمپنیاں کس طرح بنائی ہیں، ہم دیکھ لیتے ہیں کن لوگوں نے بیرون ملک کروڑوں ڈالرز کی جائیدادیں خرید رکھی ہیں، قرعہ اندازی کے ذریعے 10 لوگوں کے نام نکال کر ہمیں دے دئے جائیں لیکن کسی کو ٹارگٹ نہ کیا جائے اورجو 6بلین روپے ملے ہیں وہ قومی فنڈ میں گئے یاایف بی آر نے اس رقم کی لینڈ کروزر خریدیں ، ہمیں بتائیں ایف بی آر کے کتنے ملازمین کے پاس لینڈ کروزر یاپجیرو گاڑیاں ہیں جس پر رانا وقار نے کہاکہ یہ رقم قومی خزانے میں جمع کردی گئی ہے، بعدازاں عدالت نے ایف بی آر سے لینڈ کروزر اور پجیرو گاڑیوں کے مالک افسران کے حوالے سے تفصیلات طلب کرتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی ہے۔