ذیلی کمیٹی خزانہ کی 3ماہ میں ایف بی آر میں کرپشن کیسوں کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

ہمیں بدعنوانی کے خلاف سخت ایکشن لینا ہو گا ،سزا کے بغیر معاملات حل نہیں ہوں گے ، وزیر مملکت خزانہ رانا افضل خان بیس ہزار نیٹو کنٹینرز کے لاپتہ ہونے کے معاملے پر متعلقہ انکوائری افسر ملزمان کو ابتدائی طور پر کلیئر قرار دے چکے ہیں، معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے ، سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے پر مزید تحقیقات کی جائے گی، جن افسران پر الزامات ہیں وہ اس وقت بھی ملازمت پر ہیں، ان افسران پر الزامات کا کیس درست طریقے سے تیار نہیں کیا گیا تھا،ایف بی آرحکام

جمعرات 15 فروری 2018 22:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 فروری2018ء) سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے خزانہ نے 3ماہ میں ایف بی آر میں کرپشن کیسوں کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی ۔ وزیر مملکت برائے خزانہ رانا افضل خان نے کہا کہ ہمیں بدعنوانی کے خلاف سخت ایکشن لینا ہو گا جب سزا نہیں دی جائے گی معاملات حل نہیں ہوں گے ایف بی آرحکام نے بتایا کہ بیس ہزار نیٹو کنٹینرز کے لاپتہ ہونے کے معاملے متعلقہ انکوائری افسر ملزمان کو ابتدائی طور پر کلیئر قرار دے چکے ہیں، معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوائہے، حکام سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے پر مزید تحقیقات کی جائے گی، جن افسران پر الزامات ہیں وہ اس وقت بھی ملازمت پر ہیں، ان افسران پر الزامات کا کیس درست طریقے سے تیار نہیں کیا گیا تھا۔

سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس کمیٹی کنوینئر محسن عزیز کی زیر صدارت ہوا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں ایف بی آر میں بدعنوانی میں ملوث افسران کے خلاف تحقیقات کا معاملہ سامنے آیا، اجلاس میں ایف بی آر افسر ساجد آرائیں نے 7کروڑ روپے کے ریفنڈ دیئے، جس پر ممبر ایف بی آر نے بتایا کہ 7کروڑ کے ریفنڈ نہیں دیئے گئے بلکہ ان کو روک دیا گیا تھا اور سزا کے طور پر ان کو نچلا گریڈ دیا گیا۔

کمیٹی کنوینئر نے کہا کہ اس نے بڑا جرم کیا ہے اور اس کو چھوٹی سزا دی گئی اس نے کرپشن کی ہے اس پر مس کنڈکٹ کا چارج لگا دیا گیا ہے، جس پر ممبر ایڈمن نے کہا کہ کرپشن ثابت کرنا بہت مشکل ہے، اس کیس میں غفلت ہو سکتی ہے، 22گریڈ کے افسر نے اس پر تحقیقات کی ہیں۔ وزیر مملکت برائے رانا افضل خان نے کہا کہ اگر کورٹ میں کیس درست انداز سے لڑا جائے تو کیس جیتا بھی جا سکتا ہے۔

کمیٹی کنوینئر نے کہا کہ اگر کوئی کیس کی نشاندہی کرتا ہے اس میں کرپشن کے چارج لگائے جاتے ہیں اور محکمہ نے چھوٹی سی سزا دی ہے، اگر اس طرح رہا ہے کہ نیب کو بھیج دیں گے۔ کمیٹی کنوینئر محسن عزیز نے کہا کہ سات کروڑ ریفنڈ جاری نہیں کئے گئے مگر پانچ کروڑ 90لاکھ روپے جاری کر دیئے، کمیٹی نے کیس نیب کو بھجواتے ہوئے کہا کہ یہ کمیٹی غلط رجسٹر کی گئی ہیں، اس کیس میں آخر کیوں اس شخص کو واپس لایا گیا۔

ایف بی آر حکام نے بتایا کہ ساجد آرائیں اس گینگ کا حصہ تھا، سابق ممبر ایڈمن نے کہا کہ ساجد آرائیں کی دو تحقیقات ہو رہی تھیں، اس تحقیقات کے دوران ایک افسر کو نوکری سے بھی معطل کیا گیا، بوگس ریفنڈ جاری کئے گئے اس میں انور گورائیہ 21گریڈ کا افسر تھا اور ریٹائرمنٹ سے دو دن پہلے اسے نوکری سے نکالا گیا، ساجد آرائیں کی 19گریڈ میں پروموشن ہو گئی ہے اور اب 20ویں گریڈ میں جا رہا ہے، میں نے تحقیقات کیں اور میری تعیناتی کو دو سال بعد غیر قانونی قرار دیا گیا۔

وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہا کہ ہمیں بدعنوانی کے خلاف سخت ایکشن لینا ہو گا جب سزا نہیں دی جائے گی معاملات حل نہیں ہوں گے۔ کنوینئر کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی ایف بی آر کی تحقیقات سے ہرگز مطمئن نہیں، سابق ممبر ایڈمن نے کہا کہ بغیر پیسے کے سیلز ٹیکس کی رجسٹریشن نہیں ہوئی اور ہم ایسے لوگوں کو پکڑا، ہم نے کیس نیب کو نہیں بھیجے، ہمیں بھیجنا چاہیے تھا۔ کنوینئر کمیٹی نے کہا کہ ہم ہر کیس کو نہیں دیکھ سکتے، ان کیسوں میں اکثریت ایسی ہے کہ جنہیں نیب کو بھیجنا ہو گا۔