اگلے سال تک پاکستان امریکا کے اثر و رسوخ سے نکل جائے گا،امریکی ایجنسیوں کی رپورٹ

2019 میں پاکستان امریکا کے اثر و رسوخ سے باہر نکل کر چین کے مدار میں داخل ہوجائے گا اور یہ عمل جنوبی ایشیائی خطے میں واشنگٹن کے مفادات کیلئے خطرے کا باعث بنے گا،پاکستان جوہری ہتھیاروں کی پیداوار جاری رکھے ہوئے ہے اور کم فاصلے تک کے ٹیکنیکل ہتھیار، سمندری کروز میزائل، ایئر لانچ کروز میزائل، اور بڑے فاصلے تک جانے والے بیلسٹک میزائل سمیت نئے طریقوں کے ہتھیار تیار کر رہا ہے،امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کیسالانہ جائزہ رپورٹ

جمعرات 15 فروری 2018 21:49

اگلے سال تک پاکستان امریکا کے اثر و رسوخ سے نکل جائے گا،امریکی ایجنسیوں ..
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 فروری2018ء) امریکا کی17 انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کانگریس کو خبر دار کیا ہے کہ 2019 میں پاکستان امریکا کے اثر و رسوخ سے باہر نکل کر چین کے مدار میں داخل ہوجائے گا اور یہ عمل جنوبی ایشیائی خطے میں واشنگٹن کے مفادات کیلئے خطرے کا باعث بنے گا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے سالانہ جائزہ رپورٹ پیش کی گئی جس میں امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی جانب سے دنیا بھر کے خطرات سے آگاہ کیا گیا۔

ایجنسیوں نے خبردار کیا کہ پاکستان کی جانب سے نئے جوہری ہتھیاروں کی تنصیب عسکریت پسندوں سے تعلقات کو برقرار رکھنا انسداد دہشت گردی کے تعاون کو روکنا اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات امریکی مفادات کے لیے خطرے کا باعث بنیں گے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ پاکستان کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ پاکستان میں موجود مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کا فائدہ اٹھائیں گے اور امریکی مفادات کے برخلاف بھارت اور افغانستان پر حملے کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔

پاکستان جوہری ہتھیاروں کی پیداوار جاری رکھے ہوئے ہے اور کم فاصلے تک کے ٹیکٹیکل ہتھیار، سمندری کروز میزائل، ایئر لانچ کروز میزائل، اور بڑے فاصلے تک جانے والے بیلسٹک میزائل سمیت نئے طریقوں کے ہتھیار تیار کر رہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ نئی اقسام کے جوہری ہتھیار خطے میں نئے خطرات کو جنم دیں گے اور خطے میں سیکیورٹی کے عدم استحکام کا باعث بنیں گے۔لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی جاری رہنے کے باعث پاک بھارت کشیدگی برقرار رہے گی جبکہ بھارت اور چین کے درمیان جاری کشیدگی غیر معمولی اضافہ خطرے کو مزید بڑھانے کا باعث ہوگی۔ 17 ایجنسیوں کی اس مشترکہ رپورٹ میں سی آئی اے، ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی، ایف بی آئی اور نیشنل سیکیورٹی ایجنسی بھی شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :